کراچی۔(شوہر رپورٹر ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے معروف ادیبہ و شاعرہ فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا۔ تقریب کی صدارت کے فرائض معروف شاعرہ زہرا نگاہ نے انجام دئیے۔جاری بیان کے مطابق صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ سمیت نو الہدیٰ شاہ ،ڈاکٹر جعفر احمد ، افضال احمد سید ، فاضل جمیلی ودیگر نے شرکت کی۔ معروف شاعرہ و ادیبہ زہرا نگاہ نے صدارتی خطبے میں کہا کہ ہمیں خوشی اور فخر کے ساتھ فہمیدہ ریاض کو یاد کرنا چاہیے۔فہمیدہ کی ذات میں ایک عجیب و غریب امتزاج تھا۔ادب میں چاہے نظم ہو یا نثر ایسا شفاف دماغ ہم میں سے کسی کا نہیں جیسے اسے مل گیا تھا۔فہمیدہ زندگی کے سنجیدہ فیصلوں میں چڑیا کی طرح بھولی تھی۔معروف شاعرہ کشور ناہید نے ویڈیو پیغام میں فہمیدہ ریاض کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض عمر میں مجھ سے چھوٹی لیکن بڑی شاعرہ تھی۔شادی کے بعد لندن چلی گئی بی بی سی میں بھی کام کیا بعد ازاں کراچی آگئی۔وہاں بھی شاعری کی اور پڑھایا بھی۔فہمیدہ جب بنگال گئی تو بہاریوں کی صورتحال پر لکھا اسی طرح بھارت اور کراچی کے حالات پر بھی ناول لکھا۔ نور الہدی شاہ نے کہا کہ فہمیدہ ریاض کی تخلیق سندھ کی زمین پر ہوئی ،فہمیدہ ریاض نے سندھ میں خود کو جس طرح جذب کیا ، مہران کے پانی کو جس طرح اپنے وجود میں جذب کیا ، قابل ستائش ہے۔معروف اسکالر ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ فہمیدہ ریاض کے بارے میں مشہور تھا کہ اس بے باک شاعرہ نے بے باکی کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ڈاکٹر رشید جہاں، قرة العین حیدر، عصمت چغتائی، کشور ناہید، زہرا نگاہ نے پہلے ہی سوچ کے سماجی بندھن کو توڑنے کی شروعات کردی تھی۔فہمیدہ ریاض نے اس رجحان کو آگے بڑھایا اور تخلیقی جوہر سے نت نئے زاویے بھی اجاگر کیے۔”پتھر کی زبان“ فہمیدہ کی نو عمری کی شاعری تھی۔ معروف شاعر فاضل جمیلی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض ایک ہمہ جہت شخصیت تھیں۔ان کی ادب کے لیے خدمات قابل تعریف ہیں۔فہمیدہ ریاض شاعرہ کے ساتھ ساتھ بلا کی دانشور بھی تھیں ۔فہمیدہ ریاض نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔انہوں نے ہمیشہ تن تنہا لڑائی لڑی۔انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا اس میں مخمل کم کانٹے زیادہ تھے فاضل جمیلی نے فہمیدہ ریاض پر تفصیلی مضمون پڑھ کر سنایا۔جامی چانڈیو نے کہا کہ فہمیدہ ریاض کی شاعری محبت کا درس دیتی ہے ۔انہوں نے نظم اور گیت بھی لکھے اور ان کی نظموں میں درد ہے ۔فہمیدہ ریاض اردو ادب کی ایک بہت بڑی مثال ہیں ۔ترقی پسند روایت میں فہمیدہ ریاض نے اہم کردار ادا کیا۔وہ ایک منفرد لب و لہجہ کی مالک تھیں۔فہمیدہ کا بڑا کمال یہ ہے شاعری میں افکار کو جوڑ دیتی ہیں۔فہمیدہ بر ملا جسمانی محبت کو اہمیت دیتی ہیں۔تقریب سے افضال احمد سید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض کو سندھ سے بہت محبت تھی۔وہ صوفی ازم کی قدر کرتی تھیں لیکن بذات خود وہ صوفی نہیں تھیں ۔اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی فہمیدہ کو یہ ندامت تھی کہ وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتی تھیں۔