کراچی (نمائندہ خصوصی آغاخالد)سکھر نیشنل پریس کلب کے لان میں چودھری شجاعت کے اعزاز میں عصرانہ کا اہتمام تھا کلب کے صدر اور روزنامہ ڈان کے بیورو چیف شمیم شمسی اور جنرل سیکریٹری روزنامہ جنگ کے علی اختر جعفری میزبان تھے لان میں ٹینٹ کناتوں کے ساتھ سرخ قالین بچھا تھا پنجاب کے روائتی جٹی اسٹائل میں دراز قد کے چودھری شجاعت مہمانوں میں گھرے تھے یہ 80 کی دہائی کے آخری برسوں کا واقع ہے ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنی تھیں جبکہ ہماری اسٹبلشمنٹ کے نزدیک وہ قابل قبول نہ تھیں ان کے مقابل انہوں نے اپنے تمام وسائل صرف کرکے نواز شریف کو وزیر اعلی پنجاب بنوادیا تھا جو پپلز پارٹی کے مدمقابل متحدہ حزب اختلاف کے مشترکہ نمائندے تھے اور اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کاتارا بھی ،تو ہر طرف ان کے ہی چرچے تھے جبکہ دوسری طرف عوامی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرکے انتخاب جیتنے کے نتیجہ میں وزارت عظمی کے منصب پر فائز محترمہ بے نظیر ان کے سامنے بے بس نظر آتی تھیں، نوجوانی میں مردانہ وجاہت کے ساتھ کشمیری حسن، سرخ رنگت ،دمکتے چہرے والے نواز شریف لاڈلے وزیر اعلی پنجاب تو تھے ہی صوبے کے سارے وسائل ،اختیار و اقتدار ان کی دسترس میں دیدیے گئے تھے ان دنوں وہ بھی بگڑے رئیس زادے کھلنڈرے نوجواں اور عاشق مزاج بھی رج کے تھے اس پر مستزاد یہ کہ ملک کی ایک معروف مغنیہ ان کے عشق میں گرفتار ہوگئیں اور دوسری طرف سے جوابا پرجوش جذبہ رفاقت نے عشق کی اس بیل کو ایسا منڈھے چڑھایاکہ بے چاری گلوکارہ کا گھر ہی اجڑ گیا اور گلوکارہ نے معمولی ناراضگی پر میرے چچرے بھائی ظہیر کی نوکری ختم کروادی جسے بحال کروانے کا سنہری موقع جان کر مجمع کو چیرتے ہوے مینے چودھری شجاعت تک رسائی حاصل کی اور ان سے کہاکہ مجھے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں آپ سے ملناہے، چودھری شجاعت اس وقت نواز شریف سے بڑے لیڈر اور مسلم لیگ کے کرتا دھرتا ہونے کے ساتھ طاقت ور ملکی اسٹبلشمنٹ میں ان کا اثرو رسوخ بھی مسلمہ اور نواز شریف سے زیادہ تھا وہ سندھ میں مسلم لیگ کو منظم کرنے کی خاطر صوبے کے ہر بڑے شہر کا دورہ کرہے تھے اور اسی سلسلہ میں وہ سکھر بھی تشریف لائے تو انہیں میٹ دی پریس کی دعوت دی گئی جس میں وہ آج نیشنل پریس کلب کے مہمان خاص تھے چودھری صاحب کی پریس کلب آمد پر اختر جعفری صاحب نے دیگر صحافی ممبران کے ساتھ میرا تعارف بھی کروایا تھا اور میری ان کے سامنے خاصی تعریف بھی کی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے فورن اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کی پشت پر تاریخ کے ساتھ دستخط کرکے مجھے دیدیا اور کہاکہ میں زیادہ تر اسلام آباد میں ہوتا ہوں آپ فون کرکے آئیے گا، بعد ازاں اس کی اطلاع مینے بذریعہ فون ظہیر بھائی کو دی تو وہ اچھل پڑے اور بولے، یہ زبردست کام ہوگیا چلیں اگلے ہفتے چودھری صاحب سے ملنے چلتے ہیں دوسرے ہفتے میں سکھر سے بہاولپور پہنچا اور وہاں سے لاہور جانے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کوسٹر میں سوار ہوے تو ہمارے پیچھے ہی ایک بہت ہی وجیہ اور پرکشش خاتون بھی داخل ہوئیں جو سرائکی حسن کا شاندار شاہکار تھیں یوں بھی اس سرائکی پٹی میں گندمی یا نکھرتے مشکی رنگ میں یوسف کی زلیخا کاعکس دیکھنا ہوتو کبھی پنجاب کے اس خطے کا دورہ کریں قدرت کے کمالات دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے غربت کے ڈیروں میں ہیروں کی چکا چوند آپ کو اپنی طرف کھینچے گی یہی وجہ ہے کہ ہزاروں میل دور سےعربی بدو آکر اپنی دولت کے بل بوتے پر اس حسن نمکین کو مسلتے اور ان کی غربت بھری نسوانیت کو دل دوز چیخوں کے شور میں بھنبوڑتے اور ہوس پوری کرکے انسانیت کے منہ پر تمانچے رسید کرتے ہیں ،ان حسین خاتون کے ساتھ ایک بہت ہی خراب صورت گٹھے جسم کرخت چہرے والےادھیڑ عمر کے باباجی تھے ان کے چہرے پر نکلے موٹے اور پیپ بھرے دانوں نے ان کی شخصیت کو تکلیف دہ حد تک بدصورتی میں بدل دیاتھا مشرقی روایتی مردوں کی بری عادات کے عین مطابق میں بھی اس پرکشش اور باوقار خاتون اور اس کے ساتھ اس مرد کے رشتے کا اندازہ لگا ہی رہاتھا کہ ظہیر بھائی خاتون کی طرف اشارہ کرکے سرگوشی میں بولے اسے پہچان تے ہیں، مینے اعراض کیاتو بولے بھائی یہ پاکستان کی معروف شاعرہ نوشی گیلانی ہیں ان کاتعلق بھی ہمارے بہاولپور سے ہے، پھر وہ موصوف کی طرف اشارہ کرکے بولے یہ ان کے شوہر نامدار ہیں جو خود بھی شاعر ہیں نوشی صاحبہ ان سے شاعری پر اصلاح لینے جاتی تھیں اور پھر، ظہیر بھائی ان کے شوہر کی طرف اشارہ کرکے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولے، اپنی ایسی اصلاح کروا بیٹھیں، ان کے آخری جملے پر وہ اور ہم بمشکل ہنسی پر قابو رکھ سکے سارے راستے ان میاں بیوی نے آپس میں کوئی بات نہ کی اور لاہور آگیا جہاں سے ہماری منزلیں جدا ہوگئیں اور ہم پنڈی والی کوسٹر میں سوار ہوگئے راستے میں مینے ان سے نواز شریف کی اتنی شدید ناراضگی کا سبب پوچھا اور کہا کہ بھائی آپ ایک سرکاری ادارہ میں 17 گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور نواز شریف صوبے کا طاقت ور وزیر اعلی، یہ بات مجھے ہضم نہیں ہورہی کہ آخر وہ آپ جیسے چھوٹے درجہ کے ملازم کی نوکری کے درپئے کیوں ہوگیا تھا جس پر ظہیر بھائی نے اپنی کتھا یوں بیان کرنا شروع کی، جو ہم ظہیر بھائی سابق اسسٹنٹ ڈائرکٹر چولستان ڈیولپمنٹ اتھاریٹی اور انچارج چولستان ریسٹ ہائوس کی زبانی من و عن سن لیتے ہیں جس کے ہیرو اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب نواز شریف اور ہیروئین ایک معروف نازنیں مغنیہ تھیں اور متاثرہ فریق ظہیر تھے ان کی خاطر مجھے چودھری شجاعت کی مدد کی ضرورت پڑی، یہ کوئی نیا چونکا دینے والا جملہ نہیں تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ طاقت و اقتدار کے ساتھ "پریم نگری کاسادھو” جہیز میں ضرور ملتاہے سو نواز شریف کیوں کر پیچھے رہتے وہ تھے بھی ان دنوں پنجاب دا "سوہنا کشمیری منڈا” مجھے اچھی طرح یاد ہے 90 کی دہائی میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تو کراچی کے بوہری بازار صدر میں خوفناک بم دھماکہ ہواتھا جس میں بڑی تعداد میں جانی ومالی نقصان ہواتھا اور بوہری بازار کی ایک پوری گلی آگ لگنے سے خاک ستر ہوگئی تھی بعد میں ہمارے تفتیشی اداروں نے اس دھماکہ کے جن ملزمان کو گرفتار کیاتھا انہوں نے دوران تفتیش انکشاف کیاتھا کہ وہ بھارتی "راء” کے ایجنٹ ہیں اور اس کی فنڈنگ پر انہوں نے یہ بم دھماکے کیے تھے اس نقصان کاجائزہ لینے اور متاثرین سے اظہار ہمدردی کے لیے نواز شریف کراچی آئے اور متاثرہ بازار کا دورہ کیا اس موقع پر کراچی کی انتظامیہ نے اتنے سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے کہ صحافیوں کو بھی اس گلی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ہم دوتین رپورٹرز گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوکر وزیر اعظم کی واپسی کا انتظار کرہے تھے کہ دو تین برگر خواتین بھی آکر ہمارے ساتھ کھڑی ہوگئیں ان کی آپسی گفتگو سے اندازہ ہواکہ وہ شاپنگ کرنے آئی تھیں نواز شریف کا سن کر انہیں دیکھنے آگئیں نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمتی اور بدقسمتی کے یکساں مسافر رہے ہیں کہ وہ 80 کی دہائی کے آخری سالوں سے کراچی سمیت سندھ بھر میں بلکہ پورے ملک میں اسی طرح مقبول اور ہر دلعزیز تھے جیسے آج کل عمران خان ہیں جس نوجواں نسل کے خان ہیرو ہیں ان کے والدین کے ہیرو نواز شریف ہوا کرتے تھے مگر انہوں نے پنجاب کو اپنی سیاست کامحور بناکر اور کراچی اور سندھ کو خاص طور پر نظر انداز کرکے جو جگہ چھوڑی اس خلا کو بالآخر خان نے پر کیا (اب پچھتائے کیا ہووت ہے، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت) نواز شریف زبردست سیکوریٹی حصار میں گلی سے نکلے تو ہم اور ان خواتین کو ہجوم نے بہت پیچھے دھکیل دیا مگر گاڑی میں بیٹھتے نواز شریف کی جھلک دیکھنے کے لئے وہ خواتین بے چینی سے ایڑیاں اٹھا اٹھاکر تبصرے کرہی تھیں اور ایک نے تو گالوں پر سرخی لاتے ہوے اپنی ساتھیوں سے کہا، نیں کنا سونڑاں لگدا پیا اے، دوسری بولی ،آہو رنگ وی ٹماٹر ورگا لال اے، تو بیچاری مغنیہ کا کیا قصور وہ اپنی پہلی محبت اور انتہائی وجیہ شخصیت کے حامل شوہر کو چھوڑ کر نواز کی چاہت میں دیوانی ہوگئیں اور دیوانی بھی ایسی کہ اپنا ہنستا بستا گھر ہی اجاڑ لیا،