بٹ صاحبان کے حوالے سے عمومی بلکہ "قومی” اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ یہ خوش شکل ،خوش مزاج ،خوش خوراک اور زندہ دل لوگ ہوتے ہیں۔اتفاق سے مذکورہ بالا خواص میں سے "خوش خوراکی” کچھ زیادہ نمایاں ہو گئی جسے ملک کے طول و عرض میں "بٹ کڑاہی” کے پھیلاؤ نے مزید جلا بخشی مگر یاد رہے کہ بٹ صاحبان قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے مالامال لوگ ہوتے ہیں۔
چنانچہ اگر آپ کے حلقہ یاراں میں دو چار نہ سہی ،کوئی ایک آدھا بٹ بھی موجود ہے تو آپ بھی ہماری طرح بغیر کسی "اف اینڈ بٹ” کے خود کو خوش قسمت تصور کر سکتے ہیں. ہم اس لحاظ سے نسبتاً زیادہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے حلقہ احباب میں صرف "کڑاہی والے” بٹ نہیں بلکہ "پڑھائی والے” بٹ بھی شامل ہیں بلکہ ان کا تناسب قدرے زیادہ ہے۔فی الحال دو کا ذکر کرتے ہیں۔ان میں سے ایک عبدالخالق بٹ ہیں اور دوسرے امجد بٹ۔دونوں پکے ٹھکے کشمیری ہیں اور علم و ادب کی خوشبو میں گندھے ہوئے ہیں۔دونوں میں ایک اور قدر مشترک یہ بھی ہے کہ آپ پہلی ہی ملاقات میں ہی ان کی محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں۔اول الذکر ذکر بٹ صاحب ہمارے ہی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ،یعنی ان کا روزگار صحافت سے وابستہ ہے، مگر علم کا ایک بحر بے کراں ان کے اندر موجزن ہے ۔زبان و بیاں پر عبور ایسا کہ بڑے بڑے ادیب ان کے سامنے پانی بھریں۔ اپنے استاد (اور ہمارے بھی) اطہر علی ہاشمی صاحب کے بعد "زبان بگاڑنے” والوں کی خوب خبر لے رہے ہیں. ڈان نیوز کی اردو ویب سائٹ پر ہفتہ وار "لفظ تماشا” سجاتے اور شرارت بھری آنکھوں سے تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔مگر آج ہمارا روئے سخن آخر الذکر یعنی امجد بٹ صاحب کی جانب ہے۔ ان سے تعارف اولا” تو فیس بک پر ان کی تحریروں کے ذریعے ہوا. "پہاڑ جاگ رہا ہے” کے عنوان سے کوئی ہزار سے زائد علمی ادبی اور تحقیقی کالم لکھ چکے ہیں۔ایک دو ادبی تقاریب میں سننے کا موقع ملا تو تحریر کے ساتھ تقریر کے فن میں ان کی مہارت اور دسترس کا بھی قائل ہونا پڑا۔ برادر محترم راشد عباسی صاحب نے جب بتایا کہ بٹ صاحب کا تعلق مری سے ہے تو ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا "مری میں بٹ۔۔۔۔؟
اور اس کے ساتھ زمانہ طالب علمی کی ایک بات یاد آگئی ،جب ہم آئے روز کسی نہ کسی بزنس کی منصوبہ بندی کیا کرتے اور ان منصوبوں میں تخیلاتی رنگ بھرنے کے لیے ہمارا ایک نیازی دوست یک رکنی ہراول دستے کا کردار ادا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بزنس کا سارا انحصار اچھی مارکیٹنگ پر ہے چنانچہ جونہی کسی کاروبار کی بات ہوتی وہ جھٹ سے ایک تصوراتی اشتہار بنا لیتا۔تب ہم کراچی کے علاقے لانڈھی میں مقیم تھے اور شیش محل سینما میں پورے جوش و خروش کے ساتھ ہر ہفتے مووی دیکھنے جایا کرتے تھے۔ نیازی کا کہنا تھا کہ سینما کا منیجر اس کا دوست ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر ہم سلور اسکرین پر اپنا اشتہار مفت چلائیں گے۔ انٹرول کے دوران یا اس سے پہلے اچانک ایک دیو ہیکل جملہ ناظرین کے سامنے اسکرین پر نمودار ہوگا ۔۔۔”لانڈھی میں خدا۔۔۔۔ ”
اب خلق خدا کا اس پر چونکنا تو یقینی ہے، اس کے نیچے باریک الفاظ میں لکھا ہوگا۔۔۔ کے فضل و کرم سے۔۔اور پھر آگے بزنس کی تفصیل ہوگی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امجد بٹ کے تعارف کے دوران ہوا اور ہم بے ساختہ پوچھ بیٹھے مری میں بٹ۔۔۔؟
تفصیل اس اجمال کی یہ بیان کی گئی کہ امجد بٹ کے دادا محترم مُحمّد رمضان بٹ صاحب قیام پاکِستان سے قبل 1944ء تک جمّوں شہر ( مقبُوضہ کشمیر ) اور 1947ء تک شِملہ سے مُلحِق شہر ڈلہوزی کے ڈاکخانے میں پوسٹ ماسٹر تھے ۔ چونکہ جمّوں اور ڈلہوزی دونوں برفانی شہر تھے، لہٰذا قیامِ پاکِستان کے موقع پر انگریزوں نے پُوچھا کہ پاکِستان کہاں تبادلہ پسند کریں گے تو دادا جی نے جواب دِیا ” جہاں برف گِرتی ہو ” اِس طرح اُن کی نسل مری میں پروان چڑھی۔تب مری کشمیر ہی کا حصہ تھا۔ بٹ صاحب کے والد محترم تدریس سے منسلک تھے اور صاحبزادے نے بھی یہی شعبہ اختیار کیا ۔ امجد بٹ کے مری سے عشق کا یہ عالم ہے کہ درختوں کے کٹاؤ۔ قدرتی حسن کی بربادی۔ بے ہنگم تعمیرات۔ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی سمیت ہر معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر کڑھتے اور اس پر لکھتے چلے جاتے ہیں۔
عالمی ادب میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ "پہاڑ جاگ رہا ہے” کہ عنوان سے مختلف اخبارات میں مسلسل کالم لکھ رہے ہیں. 50 سے زائد کالجوں اور جامعات کے ہزاروں طلباہ و طالبات کو قرآنی تدوین و تراجم، لسانیات اور تاریخ مری پر لیکچر دے چکے ہیں۔ لسانیات ان کا خاص موضوع ہے اور اس کا اہم سبب یہ ہے کہ بٹ صاحب مری سے تعلق رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ علمی شخصیت اور پہلے پاکستانی اسپرانتو دان علامہ مضطر عباسی کے نہ صرف ہونہار شاگرد ہیں بلکہ ان کے علمی ورثے کوبچانے ،بڑھانے اور پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ علامہ مضطر عباسی نے قرآن کریم کا اسپرانتو زبان میں ترجمہ کیا تھا جس کی نظر ثانی و اشاعت بٹ صاحب نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
امجد بٹ کی اب تک 10 مطبوعات سامنے آچکی ہیں ۔تین زیرطبع تالیفات اور چھ زیر تحقیق منصوبے اس کے علاوہ ہیں جس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے پوری کتاب درکار ہے، مگر اس وقت ان کی دو تازہ تصنیفات ہمارے ہاتھ میں ہیں، جو گزشتہ دنوں انہوں نے ازراہ کرم دفتر کے پتے پر ہمیں ارسال کیں. ان میں سے ایک "علامہ مضطر عباسی ایک نادرہ روزگار عالم” ہے جو 238 صفحات پر مشتمل ہے. جیسا کہ بتایا گیا خود مصنف علامہ صاحب کے شاگرد رشید ہیں. یہ مری کی تاریخ میں عالمی سطح کے کسی محقق پر لکھی گئی پہلی کتاب ہے جو ان دستیاب تحریروں پر مشتمل ہے جو علامہ صاحب کے عقیدت مندوں نے ان کی شخصیت اور کارناموں کے بارے میں لکھیں ۔امجد بٹ کے الفاظ میں بحر تحقیق کے شناوروں کے لیے علامہ مضطر عباسی کی دستیاب شاعری کو بھی اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ایک قطعہ ملاحظہ ہو
دونوں جہاں کی حسرتیں گوشہ دل میں آبسیں
دل نے مگر سما سکا ،وسعت کائنات میں
صبح ازل گزر گئی، شام ابد گزر گئی
عشق کی ایک آن میں، ہجر کی ایک رات میں
امجد بٹ کی دوسری تازہ کتاب "ملکہ کوہسار مری کے اہل قلم” کے عنوان سے ہے، جو 388 صفحات پر مشتمل ہے۔ برس ہا برس کی تحقیق اور عرق ریزی کے بعد تیار ہونے والی اس کتاب میں خطہ کوہسار کے 70 کے قریب اہل قلم کا تعارف شامل کیا گیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے لیے تو یہ کتاب حیرتوں کے در وا کرتی چلی گئی کہ اس خطے میں کس پائے کے اہل علم و دانش اور قلمکار موجود ہیں۔ "رفتگاں” کے عنوان سے دنیا سے رخصت ہو جانے والے 27 قلمکاروں کا تعارف کتاب کے اولین حصے میں ہے جبکہ "موجودگان” کے عنوان سے 44 شعراء اور ادیبوں کے تعارف کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے. اس کے علاوہ قومی سطح کے چار بڑے اہل قلم کو مہمانوں کی فہرست میں رکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے. ہمارے نزدیک بٹ صاحب کی اس کاوش کی پذیرائی اہل کوہسار پر فرض ہے۔اس کا آسان اور احسن طریقہ یہ ہے کہ فیس بک پر تعریفی کمنٹ تک محدود رہنے کے بجائے کوہسار کا ہرفرد ان دونوں کتب کو اپنے خاندانوں کا حصہ بنائے اور اپنے بچوں کو بحر علم کے ان شناوروں سے روشناس کرائے، جو اپنے علم و ہنر اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اس علاقے کی شناخت بنے۔
اور آخر میں نامور شاعر وادیب، مدیر اعلیٰ ماہنامہ "دستک” مری، محمد آصف مرزا صاحب کا مذکورہ کتاب کے لیے تعارفی اقتباس مستعار لیا جا رہا ہے کہ اس سے بہتر الفاظ میں شاید امجد بٹ اور ان کی کتاب "مری کے اہل قلم” کا تعارف ممکن نہیں۔وہ لکھتے ہیں ۔۔
"جب امجد نے ملکہ کوہسار مری کے اہل قلم کا بیڑا اٹھایا تو تب یہ کام ممکن نہیں تو خاصادشوار ضرور لگتا تھا، تاہم امجد کی ہمت عالی نے اسے آسان کر دکھایا۔اس کے باطن میں پوشیدہ شہد کی مکھی نے اسے مضطرب کیے رکھا۔ اول اول تو وہ ماضی کے انجانے سفر پر نکلا اور وہ نام جو گزرے وقتوں کے فراموش کردہ علاقوں اور گمشدہ گلی کوچوں اور راستوں میں معدوم ہو چکے تھے انہیں ازسرنو زمانہ حال کے اجالے میں لے کر آنے کے جتن کئے ۔برسوں کی جمی ہوئی گردصاف کی تو ہمیں خبر ہوئی کہ کیسے کیسے گوہر نایاب غبار وقت کی تہوں میں گم تھے۔ اک ذرا قافلہ رفتگاں کے چند قدم دیکھئے تو آپ کو کچھ اندازہ ہوگا کہ ملکہ کوہسار مری کے اہل قلم کا مہم جو قلمکاران متنوع دینی ،علمی، ادبی اور لسانی جہتیں رکھنے والی شخصیات کو یکجا رکھنے میں کن کن مشکلات سے نہ گزرا ہوگا۔ مثلاً علامہ مضطر عباسی۔ مفتی صدیق الرحمن۔ ڈاکٹر راجہ اکرام اعظم۔ پروفیسر کرم حیدری۔ حمید کاشمیری۔ سیفی نوگانوی۔ لطیف کاشمیری۔ صادق بخاری۔ سلیم شوالوی۔ ارمان فارانی۔ حافظ عبدالرشید۔ حبیب فخری۔ چوہدری محمد اسماعیل اور طارق جلیل وغیرہم۔ یہ تمام شخصیات زندگی کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھتی تھیں اور اپنے اپنے کام اور نام سے زندگی میں ایک مقام اور اعتبار حاصل کیا تاہم ان سب میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ تمام قلم و قرطاس کے لوگ تھے۔