” انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "ہمارے نصیب میں اس جیسے نالائق طالب علم آئے ہیں۔” ان کے سامنے بیٹھے ایک لیکچرار مسکرائے۔میں مسکرایا، سنجیدہ ہوا، اور پھر بولا۔ "سر، میں آپ کا شکریہ ادا کرنے۔۔۔۔”
انہوں نے میری بات پوری طرح سنے بغیر ہاتھ ہلا کر کہا۔”چلو، چلو، باہر جاؤ، دیکھ نہیں رہے کہ میں یہاں ضروری بات کر رہا ہوں۔ یہ کوئی کیفے ٹیریا ہے؟ جس کو دیکھو منہ اٹھا کر اندر آ جاتا ہے۔”
میں باہر نکل آیا۔
یہ 45 سال پرانا منظر ہے۔
یہ کراچی یونیورسٹی کا شعبہ صحافت ہے جہاں میں ایم اے فائنل کے پہلے سمسٹر میں ہوں۔اور جس استاد نے بظاہر مجھے بری طرح جھڑک کر باہر نکالا ہے، وہ پروفیسر ذکریا ساجد ہیں!!لیکن صرف میں جانتا ہوں اور ذکریا ساجد صاحب جانتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے اور اس بے عزتی کے پیچھے کیا چھپا ہوا ہے۔ میرے کلاس فیلوز، قریب ترین دوست، میری والدہ، کوئی اصل بات نہیں جانتا۔
میں ان دنوں ایک ڈائجسٹ کے لئے سستے بھاؤ ترجمے کر رہا تھا، وہاں سے چار سو روپے ملنے والے تھے۔ مگر کسی وجہ سے وہ پیسے وقت پر نہ مل سکے۔ سمسٹر کی فیس تین سو روپے تھی جو انہی پیسوں سے ادا کرنی تھی۔ دیکھتے دیکھتے فیس ادا کرنے کا آخری دن آ گیا اور کہیں سے پیسوں کا بندوبست نہ ہو سکا۔
ڈرتے، جھجکتے، ساجد صاحب کو اکیلے میں پوری بات بتائی۔ انہوں نے حسب معمول کاہل اور ہڈ حرام طالب علموں کی شان میں کچھ کہا، جیب سے پیسے نکالے، گھڑی دیکھ کر کہا کہ بینک ابھی ڈیڑھ گھنٹے تک کھلا رہے گا، یہ بھی ہدایت کی کہ راستے میں دوستوں کے ساتھ "مسخریاں” کرنے نہ بیٹھ جاؤں، اور پیدل اسٹاف ٹاؤن یعنی اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
اگلے روز جب وہ میری بات سنے بغیر، میرا شکریہ قبول کئے بغیر، مجھے اپنے کمرے سے نکال رہے تھے تو اصل بات کچھ اور تھی۔ وہ فیس کی ادائی کا معاملہ، اپنے سامنے بیٹھے لیکچرار کے علم میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ کسی کے علم میں نہیں لانا چاہتے تھے۔
تین سو روپے اس زمانے میں خاصے ہوتے تھے۔ گریڈ سترہ والے کو شاید بارہ تیرہ سو ملتے تھے۔ پتا نہیں ان کا گریڈ کیا ہو گا؟ تنخواہ کیا ہو گی؟ وہ تین سو روپے کھڑے کھڑے کسی ضرورت مند طالب علم کو دے دینے سے انہیں کتنی تنگی اٹھانی پڑی ہو گی؟
آج 45 سال بعد میں پروفیسر ذکریا ساجد کو یاد کرتا ہوں اور خاموشی سے گریہ کرتا ہوں.گریہ کرتا ہوں کیونکہ ان کے رخصت ہو جانے کی خبر آئی ہے۔ اور مجھ جیسے سینکڑوں صحافی گریہ کناں دکھائی دے رہے ہیں۔ کراچی سے کوئٹہ اور اسلام آباد تک۔ لندن سے نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی تک۔
میں زندگی میں بے شمار مشہور لوگوں سے ملا ہوں۔ اور بے حد دولت مند لوگوں سے۔ اور طاقتور، مقتدر لوگوں سے۔ لیکن اب حساب لگاتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے، پچاس ساٹھ برس میں بمشکل چھ سات لوگ ایسے ملے جن سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا، بڑا آدمی کیا ہوتا ہے۔ درویش صفت، محبت بھرا، سراپا انکسار۔ ساجد صاحب انہی میں سے ایک تھے۔
تنہائی میں بیٹھو تو ہزاروں یادیں جگنوؤں کی طرح جگمگانے لگتی ہیں۔ ایک بار روزنامہ جنگ میں دو بے حد عارضی اسامیوں کی اطلاع آئی۔ ساجد صاحب اور متین الرحمان مرتضٰی صاحب نے مجھے اور عبد السلام سلامی کو وہاں بھجوایا۔ بھجواتے وقت ساجد صاحب نے کہا۔ "مجھے لگتا ہے، تم میری ناک ضرور کٹواؤ گے، پھر بھی ہدایت کرتا ہوں کہ محنت اور توجہ سے کام کرنا۔”
یہ ان کا خاص انداز تھا۔ اور ہم سب اس انداز کے دیوانے تھے۔ ایسے سادہ، کہ انہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ امریکا میں تعلیم حاصل کر چکے تھے، ولبر شریم کے شاگرد رہ چکے تھے جنہیں آج تک ماس کمیونیکیشن کی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ کبھی Wilber Schramm کا نام گوگل کر کے دیکھ لیجئے۔ اس تعلیم کی بدولت ہی شاید انہیں روشن خیالی ملی، ریسرچ کو فروغ دینے کا جذبہ ملا، اور طالب علموں کو دوست بنانے کا وہ ہنر ملا جو کم اساتذہ کو ملتا ہے۔
کراچی سے ‘نوائے وقت’ نکلا تو ذکریا ساجد صاحب نے ہماری آدھی کلاس کو وہاں بھرتی کرا دیا۔ مجھ سمیت جو طالب علم نائٹ ڈیسک پر بیٹھے، ان کی زندگی، زندگی نہ رہی۔ رات ڈھائی بجے کاپی پریس جاتی تھی۔ ساڑھے تین بجے گھر پہنچتے تھے۔ اور صبح ساڑھے آٹھ بجے یونیورسٹی میں کلاس شروع ہو جاتی تھی۔ چوتھے یا پانچویں دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور نیند کی کمی وغیرہ کی شکایت کی تو بے نیازی سے بولے۔ "جوان آدمی کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ تم جیسا احمق بھی نائٹ ڈیسک کا رگڑا کھا لے تو ہمیشہ سکھی رہے گا۔” میں مایوس ہو کر باہر نکل آیا۔ بعد میں پتا چلا کہ انہوں نے اسی روز شمس الدین صاحب سے بات کر کے مجھے صبح کی پہلی کلاس کی حاضری سے استثناء دلوا دیا تھا۔
ان کی بہت سی تصویریں میرے پاس ہیں۔ پرانی بھی، نئی بھی۔ پرانی تصاویر میری شادی کے وقت کی ہیں۔ وہ مجھے مبارکباد دے رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، شاگردوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔ اس وقت تک میں جنگ گروپ سے وابستہ ہو چکا تھا، جس پر وہ خاصے خوش نظر آتے تھے۔
خدا ہماری کلاس فیلو نضیراء اعظم کو خوش رکھے، پچھلے دس بارہ سال میں نضیراء کی وجہ سے ذکریا ساجد صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ سال بہ سال نضیراء کی امریکا سے آمد کا مطلب ہوتا تھا، ساجد صاحب کے دربار میں فوری حاضری۔ انہیں ریٹائر ہوئے کئی سال ہو چکے تھے، ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی، مگر ان کا انداز وہی تھا۔ وہ آواز سے اپنے شاگرد کو پہچان لیتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم شاگردوں اور پرستاروں کا ہجوم ان کے پاس جا پہنچا۔ مظفر، عطا، سلامی، خالدہ، احمد سلیم، وسعت اللہ خان، فاطمہ حسن، طاہر مسعود، توصیف احمد خان، نزہت شیریں، شاہین شکوہ، سلیم مغل، یاسمین طہ، یاسمین فاروقی، تصویروں میں وہ محفلیں اور ان کی رونق صاف نظر آتی ہے۔ اور وہ بشاشت بھی، جو ساجد صاحب کے چہرے پر نمودار ہوتی تھی۔
انہوں نے 96 برس کی عمر پائی، سینکڑوں صحافیوں کو ہاتھ تھام کر صحافت کے مرکزی دھارے تک پہنچایا، اور ایسا احترام پایا جو ایک بڑے آدمی کے نصیب میں ہی آتا ہے۔