شطرنج مقبول ترین دماغی کھیلوں میں سب سے اعلیٰ مقام پر ہے. سچ پوچھیں تو اس کھیل کی قدر مجھے انگلینڈ آنے کے بعد سمجھ آئی ، جب لندن کے کاٹھے گوروں والے رائل آٹوموبیل کلب میں برطانوی رؤساء کو شطرنج پر فدا ہوتے دیکھا. یہیں پہلی مرتبہ روسی شطرنج جینیس گیری کیسپروف سے ملاقات ہوئی جو انسانی تاریخ کا ذہین ترین شخص سمجھا جاتا ہے. کیسپروف وہ شخص ہے جس نے 1996 میں سپر کمپیوٹر کو مقابلے میں شکست دی تھی.
ایک پکے رنگ کا شخص تقریباً دو درجن سوٹڈ بوٹڈ گوروں کے ساتھ شطرنج کھیل رہا تھا. گورے میزوں ہر شطرنج بچھائے بیٹھے تھے اور وہ درمیان میں اپنی کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا بڑی کمال محویت سے بازی کھیل رہا تھا. معلوم ہوا پکے رنگ کا یہ شخص وادی سون سکیسر کا سلطان خان ہے جو کہ دو درجن ٹاپ برطانوی کھلاڑیوں کے ساتھ اکیلا شطرنج کھیل رہا تھا. سلطان خان نے 1931 میں ان سب لوگوں کو شطرنج کے میدان میں، تن تنہا شکست دے دی تھی”.
سلطان خان، سرگودھا کے علاقے مٹھہ ٹوانہ میں پیدا ہوا تھا. اس کا باپ نظام الدین مقامی مسجد کا امام تھا اور ساتھ ہی کلاسیکی ہندوستانی شطرنج کا کھلاڑی بھی تھا. سلطان خان کے نو بہن بھائی تھے. بچپن میں جب سلطان نے اپنے باپ سے شطرنج سیکھنے کی فرمائش کی تو الٹا پٹائی ہوئی اور اسے کہا گیا کوئی ڈھنگ کا کام کرو. سلطان نے چوری چھپے شطرنج کھیلنی شروع کردی تو وہ سرگودھا بلکہ برصغیر کے سب سے بڑے جاگیر دار اور رئیس سر عمر حیات خان ٹوانہ کی نظر میں آگیا.
عمر ٹوانہ شہنشاہ جارج پنجم کا اے ڈی سی بھی تھا جس نے دو سال سلطان کو کھیل کی تربیت دلوائی. 1926 میں وہ آل انڈیا چیمپئن بن چکا تھا. عمر ٹوانہ اسے ایک ٹرافی کے طور پر لندن کے امپیریل چیس کلب میں لے کر آیا. 1929 میں مٹھہ ٹوانہ کا سلطان خان برٹش چیمپئن بن چکا تھا اور یہ وقت تھا جب سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا.میں نے جب سلطان خان پر پڑھنا شروع کیا تو دنگ رہ گیا. وہ عمر ٹوانہ کا ایک مزارع تھا جو چٹا ان پڑھ تھا اور اسے انگریزی بولنی بھی نہیں آتی تھی مگر وہ اپنے وقت کی معلوم دنیا میں سب سے مشکل ترین کھیل کا سب سے بڑا کھلاڑی تھا. اس نے بمشکل ایک دو سال انگریزی شطرنج سیکھی جو کلاسیکی ہندوستانی شطرنج سے مختلف تھی.
گورے جو ہندوستانیوں کو غلام اور کمتر سمجھتے تھے وہ دانتوں میں انگلیاں دبائے اس کا کھیل دیکھتے تھے. 1931 میں اس نے دنیا کا سب سے بڑا چیلنج قبول کرتے ہوئے بیک وقت شطرنج کے چوٹی کے 33 کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ساتھ میچ کھیلا، 26 گیمز جیتے، 4 برابر کیے اور تین ہارے .1930 میں سلطان خان نے سلطنت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے چیس کے ورلڈ چیمپئن ہوزے کاپابلانکا کو شکست دے دی. سلطان خان نے لندن میں ایک تہلکہ مچا دیا. ایک ہندوستانی جو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے ذہین ترین لوگوں ہر بھاری تھا. کچھ چوٹی کے امریکی کھلاڑی اس سے ملنے کے لیے گئے تو ان کی ملاقات عمر ٹوانہ سے ہوئی جو کافی دیر تک ان کے سامنے اپنے گرے ہاؤنڈ کتوں کے ساتھ کھیلتا رہا اور اپنی امارت کے بارے میں ہانکتا رہا.
"تمہاری خوش قسمتی ہے کہ میں تم سے مل رہا ہوں ورنہ شام کا یہ وقت میں صرف اپنے کتوں کے ساتھ گزارتا ہوں”. کھلاڑی یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہ جس شخص کا انٹرویو کرنے آئے تھے وہی ان کے لیے چائے بنا کر لایا تھا. دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سےایک عمر ٹوانہ کا محض ایک چاکر تھا. میں نے درجنوں گورے صحافیوں کی سلطان خان پر تحریریں پڑھیں. بار بار یہی پڑھنے میں آیا کہ وہ انگلش کے دوچار الفاظ ہی بول سکتا تھا. سلطان خان لمبوترے چہرے والا، پکے رنگ کا شخص تھا. چہرہ پوکر فیس تھا یعنی جذبات سے بالکل عاری… جب وہ شطرنج کھیلتا تھا تو لگتا تھا کہ دنیا میں اور کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے. بس صرف اس کے جبڑے کی ہڈی ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی. سلطان خان برطانیہ میں 1929 سے لے کر 1934 تک موجود رہا اور اس دوران لندن کے موسم سے شدید تنگ رہا کیونکہ اسے مسلسل زکام رہنے لگا تھا. پانچ سال وہ سلطنت برطانیہ میں شطرنج کا سب سے بڑا کھلاڑی رہا. عمر ٹوانہ ہندوستان واپس جاتے ہوئے سلطان خان کو ساتھ لے گیا اور پھر کسی نے سلطان خان کا نام نہ سنا.
1944 میں سلطان خان نے تب کے وائسرائے ہند کے ساتھ میچ کھیلا اور اسے شکست دے دی. اسی وقت کے آس پاس عمر حیات ٹوانہ کا انتقال ہوگیا اور سلطان خان نے واپس مٹھہ ٹوانہ جا کر اپنی زمینوں پر کاشتکاری شروع کردی. سلطان خان 63 برس کی عمر میں ٹی بی کی وجہ سے خون تھوکتے ہوئے رب سے جاملا. اس نے اپنے کسی بھی بچے کو شطرنج نہیں سکھائی کیوں کہ وہ انہیں کہتا تھا "تم زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کرنا سیکھو”. میر سلطان خان کا بیٹا اطہر سلطان بعد میں آئی جی پولیس پنجاب کے عہدے تک پہنچا.سلطان خان کی ہوتی عطیہ سلطان نے کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی بے. میر سلطان خان آج بھی شطرنج کے کھیل کے لیجنڈ کے طور پر پہچانا جاتا ہے. اپنے وقت کے سب سے بڑے رئیس سر عمر حیات ٹوانہ کے بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا لیکن سلطان خان کے بارے میں ابھی بھی کتابیں چھپتی ہیں اور لکھے والے اس نابغہ روزگار شخص کے بارے میں سوچتے ہیں جس نے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا. ایک چٹا ان پڑھ کاشتکار جو اپنے سکور کی گنتی بھی پنجابی میں لکھتا تھا اور اپنے مخالف کو تیز عقابی نظروں سے دیکھتا رہتا تھا. جب اس سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہیں کون سی زبان بولنی آتی ہے تو وہ کندھے اچکا کر ایک لفظ کہتا تھا "چیس”.
واقعی پوری دنیا میں یہ زبان اس سے بہتر بولنے والا کوئی نہیں تھا.میرے لیے میر سلطان خان بھی ایک ہیرو سے کم نہیں،جس نے غلام ہندوستان کا ایک "تھرڈ کلاس” باشندہ ہوتے ہوئے وائسرائے ہند سے لے کر دنیا کے بہترین دماغوں کو شطرنج کے میدان میں چت کردیا تھا اور پاکستان کے قیام سے پہلے ہی ثابت کردیا تھا کہ "پاکستانی” دماغ دنیا میں کسی سے کم نہیں ہے.