اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 5 ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کی مخالفت کردی تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے تحریک انصاف سے وابستگی کے حلف نامے جمع کرائے صرف انہیں تحریک انصاف کا امیدوار قرار دیا جائے اور پھر اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں اور وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی انہوں نے عوامی خواہش کی خلاف ورزی کی۔جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔چیف جسٹس اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی۔ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے۔ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی۔اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔اختلافی نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ لیا نہ مخصوص نشست کی کوئی فہرست دی، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ 2024کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں، آرٹیکل 51 کی ذیلی شق 3کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستیں 336 ہیں آئین نے خواتین اور اقلیتوں نشستوں کو بھی ضمانت دے رکھی ہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں متناسب نمائندگی کے قانون کے تحت دی جاتی ہیں، ان نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا ان کو پر کیا جانا ضروری ہےجسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 8رکنی بینچ جس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور عرفان سعادت خان نے اکثریتی فیصلہ جاری کیا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ سے اپنا اختلافی نوٹ دیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے الگ اختلافی نوٹ دیا۔جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے الگ اختلافی نوٹ دیا