اسلام آباد۔: (نمائندہ خصوصی ):وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے اربن فلڈنگ کے خطرات سے بچنے اور مقامی پائیدار اربنائزیشن کو آگے بڑھانے کے لئے استعداد کار میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی محققین کی صلاحیت کو ترقی دی جانی چاہئے اور معیاری پالیسی کے کام کو تیار کرنے میں ان کا مضبوط کردار ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو پاک جرمن کلائمیٹ اینڈ انرجی پارٹنرشپ کے اشتراک سے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ تحقیق پر مبنی پالیسیاں آنے والے خطرات پر قابو پانے اور فیصلہ سازی میں خلاءکو پر کرنے کے لئے اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازوں اور پالیسی سازوں کو باخبر فیصلہ سازی کے لئے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ مقامی ضروریات اور حقائق کے مطابق موافقت کے اہداف طے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نئی ٹیکنالوجیز ابھر رہی ہیں،اس تناظر میں آب و ہوا کے خطرے کو کم کرنے کی حکمت عملی میں مقامی علمی تکنیکوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سائنسدانوں اور ماہرین کو ملک کے موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے کام کرنے کے لئے مصروف اور لیس ہونا چاہئے۔رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے کوششوں اور وسائل کو درست سمت میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور میڈیا کو مزید تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے فورم پر زور دیا کہ وہ تمام سفارشات کا وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری کے ساتھ اشتراک کرے۔ پاک جرمن موسمیاتی اور توانائی کی شراکت داری کی مشیر صوبیہ بیکر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلا ملک ہے جس کے ساتھ جرمنی نے ماحولیاتی کارروائی کے لیے شراکت داری قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قومی موافقت کے منصوبے کو نقطہ نظر کی ضرورت ہے جبکہ منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے موافقت کی ضرورت ہے۔کلسٹر کوآرڈینیٹر توانائی اور موسمیاتی جی آئی زیڈ پاکستان وولف گینگ ہیس نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ورکشاپ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آٹھواں سب سے زیادہ خطرے کا شکار ملک ہے جبکہ 2022 کا سیلاب اس کے موسمیاتی آفات کے خطرے کی یاد دلاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب نے ملک کی نصف آبادی کو متاثر کیا اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو 15 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔