اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرویز رشید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں وزارت مواصلات اور اس کے ذیلی اداروں کے کام کے طریقہ کار، کارکردگی، بجٹ و دیگر متعلقہ امور کے معاملات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر پرویز رشید نے اراکین کمیٹی اور وزارت مواصلات کے نمائندوں کو قائمہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں خوش آمدید کہا اور یقین دلایا کہ اراکین کمیٹی کے ساتھ مل کر وزارت مواصلات اور اس کے ذیلی اداروں کے نہ صرف مسائل حل کئے جائیں گے بلکہ ان کی بہتری کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ موٹر ویز اور ہائی ویز کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، نظام نقل وحمل بہتر ہونے سے تجارت اور سرمایہ کاری کو موثر فروغ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کا آج پہلا اجلاس ہے متعلقہ اداروں سے آج بریفنگ حاصل کی جائے گی اور بہتری کے لئے آگے کا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ سیکرٹری وزارت مواصلات نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت مواصلات کے ماتحت پانچ ذیلی ادارے کام کر رہے ہیںجن میں سب سے بڑا پوسٹل سروسز اینڈپوسٹل لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ اور این ایچ اے ہے۔انہوں قائمہ کمیٹی کو ان کے فنکشنز، مقاصد، کارکردگی، بجٹ اور سکیموں بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سٹرکوں کی کل لمبائی 5 لاکھ کلو میٹر ہے جن میں سے 14 ہزار 4 سو کلومیٹر موٹرویز اور ہائی ویز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ کے 85 جی پی اوز ہیں اور ملک بھر میں 10 ہزار سے زائد دفاتر قائم ہیں جو نہ صرف ڈاک کی ترسیل سمیت یوٹیلیٹی بلز وغیرہ کو بھی ڈیل کر رہے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پانچ ذیلی اداروں میں نیشنل ہائی ویز اور اینڈ موٹر ویز، پاکستان پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ، کنٹرکشن ٹیکنالوجی ٹرینگ انسٹیٹیوٹ اور نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر شامل ہیں۔وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مواصلات کے لئے جو فنڈ مختص کیا گیا ہے وہ کم ہے جس کی وجہ سے منصوبے وقت پر مکمل نہیں ہو سکتے جس سے ملک وقوم کو نقصان اٹھانا پڑتاہے۔ انہوں نے کہاکہ موٹر ویز اور ہائی ویزپر ٹول پلازوں پر ہونے والے رش اور لمبی لائنوں کے تدارک کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، ایم ٹیگ کو فروغ دیا جارہا ہے اور ایم ٹیگ والوں کو خصوصی رعایت بھی دی جائے گی جس سے گاڑیوں کاٹول پلازوں پر رش کم ہوگا۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ملک کی سٹرکوں کا 42 فیصد حصہ صوبہ بلوچستان میں آتا ہے مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ وہاں ایک بھی ٹول پلازہ نہیں ہے جس کی وجہ سے سٹرکوں کی مرمت اور بہتری کے منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے علاقے میں 900 کلو میٹر سٹرکیں اور صرف ایک ٹول پلازہ ہے۔دنیا بھر میں ٹول پلازوں کی مد سے خاصی آمدن حاصل ہوتی ہے ان کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائیں گے اور قائمہ کمیٹی اس حوالے سے مدد کرے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اوور لوڈیڈ ٹرانسپورٹ کا موٹرویز اور ہائی ویز پر داخلے پر پابندی لگا دی ہے، قانون کے مطابق لوڈ والی گاڑیاں سفر کر سکیں گی جس سے آمدن بھی اضافہ ہوگا۔ گزشتہ برس 60 ارب کا ہائی ویز اور موٹر ویز پر ٹول ٹیکس وصول کیا گیا تھا جو اب 100 ارب سے زائد اکٹھا کیا جائے گا۔ سینیٹر عبدالواسع نے تجویز دی کہ صوبہ بلوچستان میں ٹول پلازے متعلقہ مقامی قبائل کے ذمہ لگائے جائیں تو بہتری ممکن ہے۔ اراکین کمیٹی کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ سکھر حیدرآباد موٹر وے کی تکمیل کے لئے فنڈ کی ضرورت ہے اور اس منصوبے کے لئے 410 ارب روپے درکار ہیں۔ سینیٹر جام سیف اللہ خان نے کہا کہ اس منصوبے پر خصوصی کمیٹی اجلاس طلب کر کے معاملات کا جائزہ لیا جائے،قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اس پر خاصی بات کی گئی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے یقین دلایا کہ جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے قائمہ کمیٹی بھر پور تعاون کا یقین دلاتی ہے، سٹرکوں کی تعمیر اور مرمت کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ صوبہ پنجاب کی تمام ہائی ویز پر 1122 کی سہولت کی فراہمی کے لئے کام ہو رہا ہے اور ایک ماہ میں یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا، ملک میں 38 ملین گاڑیاں ہیں جن میں 70 فیصد موٹر سائیکل ہیں،2.7 ملین بڑی گاڑیاں ہیں جن میں 70 فیصد پرانی ہیں۔ اوور لوڈ کی وجہ سے سٹرکیں خراب ہوتی ہیں۔قائمہ کمیٹی کو آئی جی موٹر ویز اینڈ ہائی ویز نے بتایا گیا کہ سٹرکوں کے حوالے سے کچھ بین الاقوامی معاہدات ہیں جن میں سے 10 باہمی معاہدات جو ایران، چین، ترکی، روس، تاجکستان، انڈیا اور افغانستان وغیرہ کے ساتھ شامل ہیں، انڈیا کے ساتھ معاہدہ ابھی معطل ہے،دو ملٹی نیشنل معاہدات بھی ہیں اور دو انٹرنیشنل کنوینشن کے معاہدات بھی شامل ہیں۔ سینیٹرجام سیف اللہ خان نے کہا کہ سکھر حیدرآباد موٹر وے کا معاہدہ 308 ارب روپے کا تھا اب410 ارب کا بتایا جا رہاہے جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کیا جائے تو ملک کو نقصان نہیں اٹھاناپڑتا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سکھر ہائی وے پر آئے دن حادثات ہوتے ہیں اور ٹریفک کا رش بھی بہت زیادہ ہوتا ہے تمام صوبوں کو یکساں سہولیات فراہم کرنی چا ہئیں ۔انہوں نے کہا کہ چین کی جس کمپنی نے اس منصوبے پر کام کیا تھا ان کا تمام ساز وسامان وہی پڑاہے وہ ایک سٹیٹ کی کمپنی ہے اس پر بے جا تنقید کی گئی تھی جس پر چیئرمین کمیٹی نے یقین دلایا کہ وہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو اراکین کمیٹی کے اس حوالے سے تحفظات سے آگاہ کریں گے،ہمیں غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے اور سابقہ حکومت کے ایسے تمام بیانات کے ریکارڈ چیک ہونے چاہیں جس سے ملک کو نقصان پہنچا ہو۔چیئرمین کمیٹی این ایچ اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ این ایچ اے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت1991 میں قائم ہوئی۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال2024-25 کے پی ایس ڈی پی منصوبہ جات میں این ایچ اے کی 105 سکیمیں ہیں جن میں سے90 جاری اور15 نئی سکیمیں ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 105 سکیمیوں کے لئے 180 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو ان سکیمیوں کا12 فیصد بنتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے یقین دلایا کہ ان کا بہتر حل نکالا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پرائیوٹ سیکٹر کی کمپنیوں کو بلایا جائے اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ان منصوبوں کو مکمل کرایا جائے، ہمیں منصوبوں کی تکمیل کے لئے متبادل ذرائع بھی استعمال کرنے چائیں۔ سٹرکوں کی مرمت کی 482 سکیمیں ہیں،مرمت کا کام اپنے بجٹ سے کیا جاتا ہے، گزشتہ پانچ برسوں سے 206 سکیمیں مکمل کر چکے ہیں ہر سال 90 سے100 سکیمیں اٹھائی جاتی ہیں۔276 سکیمیوں پر کام جاری ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قانون کے مطابق ہر 36 کلومیٹر کے بعدا یک ٹول پلازہ ہونا چاہیے، ملک کے 164 اضلاع ہیں اور ایک سٹرک کم ازکم دس سال کے لئے تیار کی جاتی ہے۔ آئی جی موٹر وے پولیس سلمان چوہدری نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سٹرکوں پر قانون کا عملدرآمد کرنا ہمارا فرض ہےنیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز کی کل لمبائی4696 کلو میٹر ہے جس میں سے 1963 کلو میٹر موٹرویز ہیں۔ تین ایکسپریس ویزہیں جن کی لمبائی271 کلو میٹر ہے۔انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ادارے کی منظور شدہ آسامیوں کی تعداد15770 ہے جن میں سے 9202 آسامیوں پر لوگ کاکام کر رہے ہیں اور 6568 خالی ہیں۔ ستمبر2024 میں 2400 نئی بھرتیاں مکمل کر لی جائیں گی۔ ادارے نے 7.17 ملین چالان کیے جن کی مد سے8.18 ارب روپے اکٹھے ہوئے۔ ادارے نے اوور لوڈنگ پر ساڑھے تین لاکھ چالان کیے اور2100 ملین روپے اکٹھے ہوئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو لوگ بار بار قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں دنیابھر میں ان کے لائسنس ختم کر دیئے جاتے ہیں۔آئی ٹی ایس سسٹم کی جانب ہم منتقل کیوں نہیں ہوتے جس پر کمیٹی کو بتایا گیاکہ تین موٹر ویز پر یہ سسٹم لگ چکے ہیں۔ آئی جی موٹر ویز پولیس نے کہا کہ نیشنل ڈیٹا بیس سسٹم ہونا چاہیے جسے سے گاڑیوں کی تعداد اور ڈرائیونگ لائنس کاڈیٹا میسر ہوگا اور معاملات میں بہتری آئے گی۔ پاکستان پوسٹ کے ڈی جی نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا کہ ان کا نیٹ ورک ملک کے تمام علاقوں پر مشتمل ہے۔خطوط کی ترسیل کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ یوٹیلیٹی بلز بھی جمع کرتا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ عوام کا اعتماد پرائیوٹ سیکٹر پر زیادہ ہے ہم نئی سروسز میں پیچھے کیوں رہ گئے ہیں جس ڈی جی پوسٹ نے بتایا کہ جاپان اور کوریا کے ساتھ نئے معاہدے کیے ہیں اب بہتری آ جائے گی۔ کمیٹی کو بتایاکہ ادارے کی 28 ہزار منظور شدہ آسامیاں ہیں اور 22 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جن کی تنخواہ 17 ارب روپے بنتی ہے۔ اس سال14 ارب کا کام کیا گیا۔ ادارے کے دو بڑے فنگشز واپس لے لئے گئے ہیں۔ یہ ادارہ پیپر ا رولز کے تحت کام کرتاہے۔قائمہ کمیٹی نے جی پی او مری کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ سی ٹی ٹی آئی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ1986 میں قائم ہوا۔ چار کورسز شروع کیے گئے۔تین سالہ ایک کورس ہوتاہے اور ہر سال 1080 بچے اس ادارے میں شامل ہوتے ہیں اور3350 بچوں کے لئے سال میں دو دفعہ 50 سے زائد مختصر کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس ادارے کے تربیت یافتہ 2874 بچے بین الاقوامی فرمو ں میں کام کر رہے ہیں اور 40 ہزار سے زائد بچے اب تک ڈپلومہ کر چکے ہیں، 500 بچوں کے لئے ہاسٹل کی سہولت ہے۔بچوں کا داخلہ میرٹ پرہوتاہے 60 فیصد نمبر ز حاصل کرنے والے بچوں کو داخلہ ملتا ہے۔ اس ادارے کا نصاب جاپان اور کوریا کے ساتھ مل کر مرتب کیاجاتا ہے۔قائمہ کمیٹی نے اس ادارے کا دورہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اجلاس میں سینیٹرز دوست علی جیسر، جام سیف اللہ خان، ضمیر حسین گھمرو، عبدالواسع اور محمد طلال بدر کے علاوہ وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان، سیکرٹری مواصلات علی شیر، آئی جی موٹر ویز اینڈ ہائی ویز سلمان چوہدری، چیئرمین این ایچ اے، ڈی جی پوسٹل سروز اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔