سرینگر:(نمائندہ خصوصی ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے نئی دہلی کے زیر کنٹرول قابض انتظامیہ کی طرف سے بے گناہ کشمیریوں کی ظالمانہ نظربندی کی شدید مذمت کی ہے جس کا مقصد انہیں تحریک آزادی سے دستبردارہونے پر مجبور کرنا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فورسز کی طرف سے استعمال کیا جانے والا یہ ہتھکنڈا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک اور شبیر احمد شاہ جیسے سرکردہ سیاسی رہنمائوں سمیت ہزاروں کشمیری کالے قوانین کے تحت جھوٹے الزامات پر تہاڑ سمیت مختلف بھارتی جیلوں میں نظربند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گرفتاریاں اگست 2019کے بعد کی گئی ہیں جب بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور علاقے پر فوجی محاصرہ مسلط کر دیا تھا۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال واضح طور پر ابتر ہو چکی ہے اورنریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کشمیریوں کے سیاسی جذبات کو دبانے کے لیے ظالمانہ اقدامات کررہی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نافذکردہ نئے کالے قوانین کا مقصد کشمیریوں کی شناخت کومٹانا، ان کی آواز کودبانا اور ان کی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی کئی رپورٹوں میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔علاقے میں بے گناہ شہریوں کا قتل، گرفتاریاں، تشدد اور املاک پر قبضہ ایک معمول بن چکاہے ۔ہندوتوا بی جے پی حکومت انسانی حقوق کے ہر اصول کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا براہ راست تعلق تنازعہ کشمیر کے حل نہ ہونے سے ہے ۔ انہوں نے عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ بھارت سے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے کشمیریوں کو مودی کے مظالم سے بچانے کے لیے فوری بین الاقوامی توجہ کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے خبردار کیا کہ اقوام متحدہ کی خاموشی نے بھارت کو اپنی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھنے کا حوصلہ دیا ہے۔