اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر برائے آبی وسائل مصدق ملک نے صنفی امتیاز کے خاتمے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ پالیسی سازی میں خواتین اور لڑکیوں کی نمائندگی میں اضافہ ناگزیر ہے تاکہ عورت کو خودمختاری دی جا سکے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے خواتین کی صحت سے متعلق قومی کانفرنس کے دوسرے دن کے اختتامی سیشن سے اپنے کلیدی خطاب میں کیا۔انہوں نے عوامی اور نجی جگہوں میں صنفی تفاوت کی سنگین صورتحال پر روشنی ڈالی اور کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں مسلسل سماجی و اقتصادی نقصانات ،ا موات اور خواتین پر تشدد کے غیر متناسب خطرے کے بارے میں بات کی۔قبل ازیں خواتین کی صحت سے متعلق قومی کانفرنس کے دوسرے دن کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ پاکستان عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے بھرپور اقدامات کر رہا ہے، ان اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ چئیرمین این ڈی ایم نے کہا کہ پاکستان 5 واں ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوا، گزشتہ چند سالوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان کو زیادہ متاثر کیا،این ڈی ایم اے نے بین الاقوامی پارٹنر کے ساتھ نیشنل ایمرجنسی ریسپانس سینٹر قائم کیا،ملک کے مختلف علاقوں میں جنگلات میں آگ لگنے کے بیشتر واقعات ہوئے،سیلاب آنے کی بڑی وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔معروف سنگر شہزاد رائے نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بے مثال اثرات کا سامنا ہے، خواتین کی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی میرے دل کے بہت قریب ہے، سکولوں اور تعلیم کے مقامات کو بچوں کے لیے موزوں بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان کا تعلیمی نظام بچوں کی ضروریات اور مسائل کو پورا کرنے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کو تعلیمی اداروں میں مختلف دبائو جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان تمام مسائل کے حل کے لیے باہمی کوششوں کی ضرورت ہے۔اپنے خطبہ استقبالیہ میں قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ڈبلیو ایس)کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے کہا کہ پاکستان کے قدرتی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے کلائمیٹ چینج کے درپیش چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا، کلائیمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، قدرتی آفات سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔نیشنل کمیشن آن وویمن سٹیٹس کے زیر اہتمام منعقدہ قومی کانفرنس کے دوسرے دن کا موضوع ’’پاکستان میں خواتین کو کلائیمیٹ چینج سے درپیش چیلنجز“ تھا۔نیلوفر بختیار نے کہا کہ کلائیمیٹ چینج سے عمر رسیدہ افراد، بچے بالخصوص خواتین متاثر ہوتی ہیں، اس لیے ہمیں کلائیمیٹ چینج کے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے خود کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں قدرتی آفات سے بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، کورونا کے بعد خواتین پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو اللہ تعالیٰ نے شعور دیا ہے جس کی بدولت ایک عورت پورے خاندان کی فلاح کومقدم رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرعی شعبے سے 68فیصد خواتین منسلک ہیں تاہم صرف 4فیصد خواتین زرعی اراضی کی مالک ہیں۔اس موقع پر کانفرنس میں مدیحہ لطیف کنٹری ڈائریکٹر پاتھ فائنڈر ،پاکستان میں آذر بائیجان کے سفیر خضر فرحدوف ،ثمر خان ،چائلڈ سیل این ڈی ایم اے مس ذلیخا ،محمود اختر چیمہ ،فرزانہ الطاف شاہ ڈی جی ای پی اے ،شبنم بلوچ ،نصیر میمن ،بلال انور ،در شہوار محمود ،محمد عباس حسن ،بریرہ حنیف سمیت دیگر شرکاءنے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی اور پاکستان میں کلائیمیٹ چینج سے خواتین کو درپیش چیلنجز کا احاطہ کیا ۔