لاہور۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کا مقصد دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہے،آپریشن عزم استحکام نیشنل ایکشن پلان کا تسلسل ہے جس کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں،آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے،خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں ہوں گی،آپریشن کے خدو خال اتفاق رائے کے بعد طے کئے جائیں گے، دہشت گردی پر قابو نہ پایا گیا تو پورے ملک میں اس کا اثر ہو سکتا ہے،آپریشن کی کامیابی کے لیے تمام اداروں اور سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے،لہذا تمام فریقوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت کرنی چاہیے۔ وہ منگل کو ماڈل ٹائون لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کی جانب سے عزم استحکام آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام وزرائے اعلی موجود تھے اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔اس کو اسمبلی میں پیش کر کے اس پہ بحث کی جائے گی،اس آپریشن سے متعلق اپوزیشن کے تمام خدشات دور کئے جائیں گے لہذا تمام ارباب اختیار کو اس آپریشن کو سپورٹ کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،دہشت گردی قومی مسئلہ ہے اور سب کو مل کر اس سے نمٹنا ہوگاانہوں نے مزید کہا کہ اس آپریشن کے باعث کوئی نقل مکانی نہیں ہوگی۔خواجہ محمد آصف نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا معاملہ تمام مراحل کے بعدپارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گاجہاں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو مکمل بحث کا موقع دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کی کہیں رٹ قائم نہیں ہوئی،ماضی میں سوات،قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی،جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے،آپریشن عزم استحکام پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا اور آپریشن پر اپوزیشن کی تشویش کا ازالہ کیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ دسمبر2016 میں سانحہ اے پی ایس ہوا،اس وقت نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا،اس وقت سوات سمیت کچھ علاقوں پر دہشگردوں کا قبضہ تھا،اب صورت حال مختلف ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں عزم استحکام پاکستان آپریشن کا فیصلہ کیاگیا جس میں وزیر اعظم،چاروں وزرا اعلیٰ،چیف آف آرمی سٹاف سمیت دیگر موجود تھےلیکن کسی نے مخالفت نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کو ضرب عضب اور راہ نجات سے ملایا جا رہاہےجبکہ آج صورتحال قدرے مختلف ہے،رات کے اوقات میں چند علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کارروائیاں کرتے ہیں،کسی علاقے پر مکمل کنٹرول اب کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا نہیں ہے۔خواجہ محمد آصف نے کہا مکمل اتفاق رائے سے اس آپریشن کو شروع کیاجائے گا اور تمام جماعتوں کے تحفظات کو دور کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ہی شروع ہوگا،اس آپریشن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں،تمام اداروں کو اس آپریشن کو سپورٹ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو معافیاں دینے کا نقصان ہوا ہے،یہ فیصلہ اس وقت کی سول قیادت نے کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان جب مرتب کیا گیا تھا اس وقت ملک کے مختلف علاقے دہشت گردوں کے قبضے میں تھے،اب کچھ علاقے ایسے ہیں جن میں تحریک طالبان کے دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں لیکن پہلے والی صورتحال نہیں ہے،یہ آپریشن کسی کے کہنے پر نہیں کر رہے بلکہ صورتحا ل کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی مرضی سے کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دے رہی ہیں۔میڈیا، سیاستدان اور اداروں کو اس آپریشن پر متفق ہونا ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام پاکستان پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف کی حمایت حاصل ہے اور ہم کوئی بھی فیصلہ ان کی مشاورت کے بغیر نہیں کرتے