اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کی میثاق معیشت کی تجویز پر اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےکہا ہے کہ بجٹ سازی میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کی مشاورت اور تجاویز بے حد اہمیت کی حامل ہیں، دعا گو ہوں وزیراعظم ملک کو مسائل سے نکالنے میں کامیاب ہوں، ملک کے ہر ڈویژن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آئی ٹی پارکس قائم کئے جائیں اور اس کیلئے گلگت کے پہاڑوں سے لیکر ملک کے گوشے گوشے تک براڈ بینڈ تیز ترین انٹرنیٹ کی سروس فراہم کی جائے، توانائی کا بحران مقامی ذرائع سے پورا کیا جائے، شمسی اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کیلئے وزیراعظم بڑی بڑی لابیز کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں،ہم ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ منگل کو قومی اسمبلی میں بجٹ 25-2024ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ کے ذریعے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عوام کودرپیش مشکلات کو حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی الیکشن لڑ کے آئے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے اصل مسائل کیا ہیں۔ عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے سیاسی اختلافات کیا ہیں، کون جیل میں ہے اور کون نہیں، عوام کا اصل مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اصل مسائل معاشی بحران، غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، عوام جب اس ایوان اور حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کو توقع ہوتی ہے کہ ہم آپس کے مسئلے اور ذاتی مسائل اور سیاسی ایشوز کو سائیڈ پر رکھ کر ان کے بنیادی مسائل حل کرنے کو ترجیح دیں گے اور مل بیٹھ کر مشورہ کر کے اور اتفاق رائے سے ان کے مسائل کا حل پیش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پچھلی مرتبہ بھی اور اس مرتبہ بھی میثاق معیشت کی بات کی ہے، اگر ہم نے پاکستان کے طویل المدتی مسائل حل کرنے ہیں تو یہ میثاق معیشت کے بغیر اس کا حل ممکن نہیں ہے۔ اس پر ہم نے آپس میں مشاورت کر کے اور اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس معاملے پر ایک ایسا اتفاق رائے بنائیں جس سے عوام اور بزنس کمیونٹی اور عالمی سطح پر ایسا پیغام جائے کہ پاکستان نے اپنے بنیادی مسائل کا حل نکالنے کے لیے 10 ،20 سال کی منصوبہ بندی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کیلئے پہلا قدم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم شہباز شریف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم دعا گو ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے اس مشن میں کامیاب ہوں تاکہ پاکستان اس مشکل صورتحال سے باہر نکل آئے۔انہوں نے کہا کہ آٹے، پیٹرول اور دیگر اجناس کی قیمتیں پانچ چھ سال پہلے کم تھی جن میں اب اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے جس شخص کا 35 ہزار روپے میں گزارا ہو جاتا تھا اب اسے 70 ہزار روپے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت مبارک باد کی مستحق ہے کہ مہنگائی میں کچھ کمی ہوئی ہے، مجھے امید ہے کہ حکومت یہ کوششیں جاری رکھے گی اگر یہ حکومت مہنگائی پر قابو کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ ایک بڑا قدم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں اضافہ کرنے پر حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، عالمی سطح پر اس پروگرام کو سراہا جا رہا ہے مختلف ممالک میں اسی طرز پر پروگرام لائے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے معاشرے کے غریب ترین عورتوں کی مدد کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک ایسا ٹول ہے جس میں ملک کے عوام کی مدد کی جا سکتی ہے اور قدرتی آفات کے دوران بھی اس ٹول کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پروگریسو ٹیکسیشن پر یقین رکھتی ہے ہم نے وزیر خزانہ سے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے بارے بات کی ہے۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کے لئے ہمیں ڈائریکٹ ٹیکسیشن کی طرف جانا ہوگا۔ بجٹ میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جب سے صوبوں کو ٹیکسیشن کے اختیارات ملے ہیں سندھ میں ہم نے اس نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ہم بزنس کمیونٹی کو بات چیت کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے عوام کے ساتھ مل کر ایک ایسی پالیسی لانا پڑے گی جس میں ہم کامیاب بھی ہوں اور ہمارے ریونیو میں بھی اضافہ ہو سکے۔ہم نے حکومت کو تجویز دی ہےکہ خدمات پر سیلز ٹیکس میں تمام صوبوں کو شامل کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں تمام صوبے اپنی جگہ ہیں مگر صوبہ خیبر پختون خوااور بلوچستان کی کارکردگی اچھی ہے۔بلوچستان بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی بھی اچھی ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ سیلز ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے تو ہم وفاق کے لیے اپنے اپنے ٹارگٹس پورے کریں گے۔اگر کوئی صوبہ اس کو دیے گئے ہدف سے زیادہ رقم اکٹھی کرتا ہے تو وہ رقم اس کو دی جائے۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد 17 ،18وفاقی وزارتیں صوبوں کو منتقل ہونی چاہییں تھیں۔مجھے یقین ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرے گی۔انہوں نے تجویز دی کہ کھاد کے کارخانوں کو سبسڈی دی بند کر کے یہ رقم براہ راست کاشتکاروں کو دی جائے۔
وزیراعظم ان بڑی بڑی لابیز کے خلاف قدم آگے بڑھائیں تو پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم کا بھرپور ساتھ دے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ذرعی شعبے میں نمو اچھا شگون ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں زراعت میں سرمایہ کاری کی اور ہمارے کاشکار نے ہماری معیشت کو اوپر اٹھایا جس سے برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی جادو کی چھڑی نہیں اشیا درآمد کر کے ہم باہر کے کاشتکاروں کو جو فائدہ پہنچاتے ہیں وہی پیسہ ہم اپنے کاشتکاروں کو دے کر فائدہ بھی حاصل کر سکتے ہیں اور بے روزگاری کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بھارت میں اربوں روپے کی سپورٹ کسانوں کو دی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر اگر اپنے کاشتکاروں کو آدھی سپورٹ بھی دے دیں تو اس سے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔بجٹ میں کسانوں کو سپورٹ کیا جانا چاہیے تھا۔
اگر ہم جلدی نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے زرعی شعبے کو مضبوط بنائیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں دنیا کے تیسرے بڑے گلیشیئرز ہیں۔دنیا اپنے برف کے ذخائر پگھلنے کی وجہ سے خدشات کا شکار ہے ہمیں بھی یہ بات سوچنی چاہیے کہ جب ہمارے برف کے ذخائر پگھلیں گے تو ہمارا کیا بنے گا۔موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمیں اپنی تیاری کرنی ہوگی۔جب ہم خود آگے بڑھیں گے تو دنیا بھی ہمارا اس سلسلے میں ساتھ دے گی۔موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کو ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ہمیں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گے
۔ہمیں شمسی توانائی اور قابل تجدید توانائی کو سپورٹ کرنی چاہیے اور اس کے خلاف سرگرم لابیز کا راستہ بند کرنا چاہئے۔ درآمدی توانائی کی بجائے ہمیں اپنی مقامی توانائی پر توجہ دینا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں میرے حلقے میں بھی 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ہم نے سندھ میں یہ سوچا ہے کہ غریب لوگوں کو مفت سولر پینل لگا کر دیں گے جو لوگ تھوڑا سا افورڈ کر سکتے ہیں ان سے تھوڑے پیسے لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ارکان اسمبلی کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بھی شمسی توانائی کو فروغ دے کر لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے باہر نکل سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم شمسی توانائی ونڈ ملز اور پن بجلی کے ذرائع بڑھا کر نہ صرف ملکی معیشت کو مضبوط کر سکتے ہیں بلکہ اس سے ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ امپورٹ بل کم کرنے کے لیے درآمدی کوئلہ استعمال کرنے کے بجائے تھر کے کوئلے کو استعمال کیا جائے۔وزیراعظم نیپرا سمیت تمام اداروں کو مجبور کریں کہ ہم نے توانائی کے لیے اپنے مقامی ذرائع استعمال کرنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت جہاں سے گیس سمیت قدرتی وسائل نکلتے ہوں ان علاقوں کا ان پر سب سے پہلا حق ہے۔اس پر عمل درآمد سے پسماندہ علاقوں میں معاشی انقلاب آئے گا، وزیراعظم کا اس حوالے سے قدم خوش آئند ہے۔حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کام کرنا چاہے تو ہم مدد دینے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے نیب کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس ادارے کو ختم کرنے کے لیے ہم اتفاق رائے پیدا کر لیں تو اس سے معیشت اور جمہوریت دونوں کا فائدہ ہوگا۔ملکی معیشت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گرد گھوم رہی ہے ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس کی ترقی کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر فرام کرنا ہوگا۔براڈ بینڈ اور تیز ترین انٹرنیٹ کی سروس ہمیں اپنے نوجوانوں کو گلگت کے پیاڑوں سے لے کر ملک کے تمام بڑے شہروں تک ہر جگہ پہنچانی ہوگی۔پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ملک میں آئی ٹی پارکس قائم کیے جائیں۔مشاورت اور اتفاق رائے کے ساتھ ہم ہر شعبہ میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھنے والے بعض افسران زمینی حقائق سے اگاہ نہیں ہے اس کے لیے سیاسی مشاورت اور تجاویز بے انتہا اہمیت کی حامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اس لیے دودھ پر 18 فیصد ٹیکس نہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دل کے سٹنٹس سمیت انسانی صحت کی دیگر اشیا ء پر ٹیکس میں اضافہ واپس لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ میں حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ مہنگائی کے مقابلے اور ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے ہم حکومت کا بھرپور ساتھ دیں گے۔