اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )سینیٹ نے فنانس بل 2024 کے لئے اپنی سفارشات کی منظوری دیدی جنہیں قومی اسمبلی کو فنانس بل میں شامل کرنے کے لئے بھجوا دیا گیا۔ سینیٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کو بھجوائی جانے والی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ خصوصی افراد کو ان کی بنیادی تنخواہ کے سو فیصد کے مساوی اضافی الائونس دیا جانا چاہئے۔ صنعتوں سمیت دیگر شعبوں کی طرح زرعی معیشت کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جانا چاہئے۔ انکم ٹیکس ریفنڈ کے راستے میں حائل رکاوٹیں اور مسائل حل کئے جائیں اور بیمار تعمیراتی صنعت کو فعال بنایا جائے۔ کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے سے بڑھا کر 45 ہزار کی جائے۔حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر مذاکرات کے ذریعے 2024 کے لئے آئی پی پیزکو تقریبا2.1 ٹریلین کی کیپسٹی پیمنٹس کے معاملے کو حل کیا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم لیوی میں اضافے کو واپس لیا جانا چاہئے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے مالیاتی بل 2024 بشمول سالانہ بجٹ گوشوارے پر سفارشات مرتب کرنے کے لئے تجاویز پر کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر قائمہ کمیٹی کو سفارشات کو حتمی شکل دینے کے لئے 14 دن کا وقت دیا جاتا ہے لیکن اس بار ہمیں صرف 6 دن ملے ہیں، قائمہ کمیٹی نے مختلف ایسوسی ایشنز، چیمبرز کے نمائندوں سے بھی بریفنگ لی، تعلیم، میڈیکل، ریٹیل، آٹو موٹو اور بینک سمیت تمام شعبوں سے بھی بریفنگ لے کر رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔قائمہ کمیٹی نے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے کر سینیٹ میں پیش کر دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے اور بچوں کے دودھ پر ٹیکس کو مسترد کر دیا گیا ہے اور نان فائلرز کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت ایک ایسا شعبہ ہے جس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے، تمام سیاسی جماعتوں کو معاشی استحکام کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ 2024-25 کے پی ایس ڈی پی کے تحت انڈس ہائی وے کی تکمیل کے تمام منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ حیدر آباد سکھر موٹروے پراجیکٹ بنائو چلائو اور منتقل کرو کی بنیاد پر مکمل کیا جائے۔ دستاویزی معیشت کو یقینی بنانے کے لئے 35 ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈ ٹرانزیکشن کو لازمی قرار دیا جائے۔سولر انڈسٹری سے متعلق پرزہ جات پر سیلز ٹیکس کی یکساں شرح سے نفاذ ہونا چاہئے۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ صنعتوں سمیت دیگر شعبوں کی طرح زرعی معیشت کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے۔ خیراتی تنظیموں کی آڑ میں ٹیکس استثنیٰ سے فائدہ اٹھانے والی تنظیموں کی نشاندہی ہونی چاہئے۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے اور ایف بی آر کی استعداد بڑھانے کے لئے ایف بی آر میں میرٹ پر پانچ ہزار خالی پوسٹوں پر تقرریاں کی جائیں۔ خصوصی افراد کو ان کی بنیادی تنخواہ کے سو فیصد کے مساوی اضافی الائونس دیا جانا چاہئے۔ آئی ٹی کمپنیوں پر دوہرے ٹیکس لاگو کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ موبائل فونز پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کئے جانے چاہئیں۔پولٹری فیڈ پر سیلز ٹیکس کا نفاذ واپس لیا جانا چاہئے کیونکہ اس کے نفاذ سے پولٹری کی مصنوعات میں اضافہ ہو گا اور عام آدمی متاثر ہو گا۔ کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر سالانہ 30 ہزار ڈالر کی موجودہ حد بڑھا کر کم از کم 50 ہزار ڈالر کی جانی چاہئے۔ موٹر بائیکس استعمال کرنے والوں کو فیول پرائس کی مد میں ریلیف دینے کے لئے نظام وضع کیا جانا چاہئے۔ درآمدی نیوز پرنٹ پر 10 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ واپس لیا جانا چاہئے اور پرنٹ انڈسٹری کے لئے زیرو ریٹ سٹیٹس بحال کیا جانا چاہئے۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جانا چاہئے۔بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کے لئے صوبے کے لئے نیا ترقیاتی پروگرام اور ترقیاتی سکیموں کا اعلان کیا جائے۔ بلوچستان کے طلباء اور نوجوانوں کے لئے وفاقی بجٹ میں ترقیات پروگرام، سکالرشپس اور سکیمیں شامل کی جائیں۔ وفاقی بجٹ میں بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لئے مراعات اور امدادی پروگرامز متعارف کرائے جائیں، اس سے بلوچستان جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں میں بالخصوص اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع بڑھانے میں مدد ملے گی، بلوچستان میں ایل این جی پلانٹ سمیت توانائی کے منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کئے جائیں تاکہ بجلی کی قلت کے مسئلے سے نمٹا جا سکے، بلوچستان میں ڈیموں اور آبپاشی کے نظام سمیت پانی کی قلت کے مسئلے کے حل کے لئے واٹر مینجمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کے لئے وافر فنڈز مختص کئے جائیں۔ فاٹا اور پاٹا میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی روشنی میں مقامی اشیاء پر استثنیٰ 30 جون 2025 تک بحال کیا جانا چاہئے۔سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ تعمیراتی شعبے کے لئے ٹیکس رجیم فنانس ایکٹ 2019 کی سطح پر واپس لایا جائے اور تعمیراتی شعبے کے لئے فنانس ایکٹ 2015 کے ذریعے متعارف کرایا جانے والا سپر ٹیکس واپس لیا جائے یا ختم کر دیا جائے۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ پیشگی نوٹس کے بغیر کمپنی بینک اکائونٹس بلاک کرنے کا عمل روکا جائے۔ انکم ٹیکس ریفنڈ کے راستے میں حائل رکاوٹیں اور مسائل حل کئے جائیں اور بیمار تعمیراتی صنعت کو فعال بنایا جائے۔ کاروبار میں آسانیوں اور ون ونڈو آپریشن کے لئے اقدامات کئے جائیں۔سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے سے بڑھا کر 45 ہزار کی جائے۔ سینیٹ نے سفارش کی ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر مذاکرات کے ذریعے 2024 کے لئے آئی پی پیز کو تقریباً 2.1 ٹریلین کی کیپسٹی پیمنٹس کے معاملے کو حل کیا جائے۔ پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم لیوی میں اضافے کو واپس لیا جانا چاہئے۔ سٹیل مینوفیکچررز کے لئے ٹرن اوور ٹیکس کی شرح 1.25 فیصد سے کم کر 0.5 فیصد کی جائیں اور ٹرن اوور ٹیکس ایڈجسٹمنٹ تین سال سے بڑھا کر دس سال کی جائے۔