اسلام آباد:اردو ادب کے عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی چھٹی برسی 20 جون براز جمعرات منائی گئی۔ مشتاق احمد یوسفی ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام عبدالکریم یوسف زئی تھا۔انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فلاسفی میں ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔اے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور ایم اے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی ۔ 1946ء میں پی سی ایس کے امتحان میں کامیاب ہو کر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے ۔1946ء میں پی سی ایس کر کے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے ۔اسی سال ان کی شادی ہوئی۔اگلے ہی برس (1947)ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا جس کے بعدان کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے پاکستان ہجرت کرنے لگے ۔ یکم جنوری 1950 ء کو مشتاق احمد یوسفی نے بوریا بستر باندھا اور کھوکھرا پار عبور کر کے کراچی آ بسے ۔ 1950 ء میں کراچی میں جاکر انہوں نے بینک کاری نظام میں اپنی آئندہ زندگی کا آغاز کیا ۔مسلم کمرشل بینک میں ان کا تقرر بحیثیت ڈپٹی جنرل مینیجر ہوا۔1965ء میں وہ ترقی کر کے Allied Bank Ltd کے مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور تقریباً دس سال تک خدمات انجام دیتے رہے ۔ اس کے بعد 1974ء میں وہ یونائٹڈ بینک لمیٹڈ کے صدربنے ۔تقریباً تین برس تک صدارتی خدمات انجام دینے کے بعد 1977ء کو انہیں پاکستان بینکنگ کونسل کا چیئر مین بنایا گیا۔بینکاری نظام میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے انہیں قائد ِ اعظم میموریل میڈل سے نوازا گیا۔اردو طنز و مزاح میں مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ انہوں نے 1955 ء میں ’’صنفِ لاغر‘‘ نام سے ایک مضمون لکھ کر مزاح نگاری کا آغاز کیا ۔ ان کا یہ مضمون مشہور رسالہ ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1961ء میں ا ن کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے ‘‘ شائع ہوئی جس کو خاص و عام میں کافی مقبولیت ملی۔ ان کی دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں ، تیسری کتاب ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں ، چوتھی کتاب ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں اور پانچویں کتاب ’’شامِ شعر یاراں ‘‘ کے نام سے 2014ء میں منظر عام آئی۔خاکم بدہن اور زرگزشت پر مشتاق احمد یوسفی کو آدم جی ایوارڈ سے نوازہ گیا ۔علاوہ ازیں انھیں ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز اورپاکستان اکیڈمی آف لیٹرز ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی نے زرگزشت کو اپنی سوانح نو عمری قرار دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نوعمری کے متعلق اس میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں ۔ اس کتاب میں ان کے بینکنگ کیریر کے شروع سے لے کر کتاب کے مکمل ہونے تک کے حالات کا بیان ملتا ہے ۔مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی کتاب چراغ تلے 1961ء میں چھپی اور خاکم بدہن 1969ء میں، جب کہ زرگزشت 1976ء میں اور ان تین کتابوں کے ذریعے انھوں نے شگفتہ نثر نگاری کا جو اعلی معیار قائم کیا اس کا نمونہ دور دور تک کہیں اور نظر نہیں آتا تھا۔ آبِ گم، جو 1990ء میں چھپی ناول کی طرح مقبول ہوئی۔یہ ایسی کتابیں تھیں جن کے وسیلے سے یوسفی صاحب اردو ادب کا ایک مستقل باب ہو چکے تھے۔ ایک اور کتاب بھی آئی تھی یوسفی صاحب کی، شامِ شعرِ یاراں، یہ کتاب 2014ء میں منظر عام پر آئی جو ان کی متفرق تحریروں کو جہاں تہاں سے جمع کرکے مرتب کر لی گئی تھی۔۔ 20 جون 2018ء کو مشتاق احمد یوسفی کی 94 سال عمر میں وفات ہوئی اور ان کو کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی کی برسی کے موقع پر علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا اور اردو مزاح نگاری کے درخشندہ ستارے کی خدمات پر خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔