اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):آئندہ مالی سال 25۔2024 کے وفاقی بجٹ کے نمایاں خدوخال کے مطابق اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد ، افراط زر کی شرح 12 فیصد اور ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں گریڈایک سے سولہ تک ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اورگریڈ17 سے لیکرگریڈ22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصداضافہ کرنے کی تجویزدی دی گئی ہے، حکومت نے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصداضافہ کرنے کااعلان کیاہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم تنخواہ کی حد37 ہزارروپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔بدھ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ مالی سال 2024-25 کے لئے اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا ایک فیصد ہونے کا تخمینہ ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12,970 ارب روپے ہے جوکہ جاری مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7,438 ارب روپے ہوگا۔وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3,587 ارب روپے ہوگا۔وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 9,119 ارب روپے ہونے کا اندازہ ہے جبکہ کل اخراجات کا تخمینہ 18,877ارب روپے ہے جس میں سے سود کی ادائیگی کا حجم 9,775 ارب روپے ہو گا۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں جاری اورنئے ترقیاتی منصوبوں پربھرپورتوجہ دی گئی ہے، سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام ایک ہزار چار سو ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ایک سو ارب روپے اضافی مختص کیے گئے ہیں۔ مجموعی ترقیاتی بجٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی ایک ہزار پانچ سو (1500) ارب روپے ہوگا۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں دو ہزار ایک سو بائیس (2,122) ارب روپے دفاعی ضروریات کیلئے فراہم کیے جائیں گے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے آٹھ سو انتالیس (839) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار چودہ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر 1,363 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔بجٹ میں مجموعی گرانٹس کاحجم 1,777 ارب روپے ہے جس میں بی آئی ایس پی، آزادجموں وکشمیر ، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع، ہائیرایجوکیشن کمیشن، ریلوے، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے پرخصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں گریڈایک سے سولہ تک ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اورگریڈ17 سے لیکرگریڈ22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصداضافہ کرنے کی تجویزدی دی گئی ہے، حکومت نے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصداضافہ کرنے کااعلان کیاہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم تنخواہ کی حد37 ہزارروپے ہے۔بجٹ میں پنشن کے نظام میں اصلاحات کیلئے تجاویز بھی شامل ہے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں معاشی طورپرکمزورطبقات کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے پرپوری توجہ دی گئی ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 27 فیصد اضافے کے ساتھ 593 ارب روپے تک لے جانے کی تجویز ہے ،کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کی جائے گی، تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مالی خود مختاری کا ہائی برڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام متعارف کرانے کے منصوبے کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں زراعت کو قومی معیشت کا اہم ستون قراردیتے ہوئے شعبہ کی ترقی کیلئے کئی اقدامات کی تجویز دی گئی ہے، وزیر اعظم کے اعلان کردہ کسان پیکیج کے تحت سکیم کیلئے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔اس کے ساتھ ساتھ توانائی کا شعبہ گردشی قرضوں کے چیلنجوں پر قابو پانے بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے پربھی توجہ دی گئی ہے ،ان اقدامات سے سال کے اختتام تک سرکلر ڈیٹ سٹاک میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا، آئندہ مالی سال میں این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کی جائیں گی ، نوڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کیا جائیگا بجلی چوری کیخلاف مہم کو زیادہ منظم کیا جائے گا، بجلی کی پیداوار کو مہنگے برآمدی فیول کی بجائے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل کرنے کی ترجیح دی جائیگی توانائی کے شعبہ کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 253 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے،این ٹی ڈی سی کے سسٹم میں بہتری کیلئے 11 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے ۔ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں آبی وسائل کیلئے 206 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، یہ سرمایہ کاری پینے کے صاف پانی تک رسائی، زرعی پیداواری صلاحیت اور ہائیڈل پاور سے متعلقہ شعبوں میں لگائی جائے گی، مہمند ڈیم کیلئے 45، دیامیر بھاشا کیلئے 40، چشمہ رائیٹ بینک کینال کیلئے 18 ارب روپے اور بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ کیلئے 10 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ، آئی ٹی سیکٹر کیلئے 79 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی جانے کی تجویز دی گئی ہے،فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ڈیجیٹلائزیشن اور اصلاحات کیلئے 7 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل کیلئے 8 ارب روپے، ٹیکنالوجی پارک ڈویلپمنٹ پراجیکٹ اسلام آباد کیلئے 11 ارب روپے، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کیلئے 2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اسلام آباد کے 167 سرکاری سکولوں میں انفراسٹرکچر اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، اسلام آباد کے 200 پرائمری سکولوں میں طلباء کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کیا جائے گا،پڑھائی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ای لائبریریاں قائم کی جائیں گی، اسلام آباد کے 16 ڈگری کالجز کو نسٹ، این ایس یو، نمل اور کامسیٹس جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلیٰ نظام کے حامل تریبتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا، 6 ماہ کے آئی ٹی کورسز کرائے جائیں گے، پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم طلباء کیلئے ایجوکیشن ووچر سکیم متعارف کرائی جا رہی ہے، دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کیلئے پنک بسیں متعارف کرائی جا رہی ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جائیگا ،نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بیرون ملک مقیم اہل وطن کی مدد کیلئے متعدد سہولیات متعارف کروائی گئی ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر کے فروغ کیلئے 86.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، یہ رقم ٹی ٹی چارجز کی واپس ادائیگی، سوہنی دھرتی سکیم اور دیگر سکیموں کیلئے استعمال کی جائے گی، افرادی قوت کو مارکیٹ کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق تیار کرنے کیلئے سنٹر آف ایکسلینس قائم کئے جائیں گے، تارکین وطن کی شکایات کے بروقت ازالے کیلئے موثر نظام بنایا جائے گا، اس کیلئے ایک بین الاقوامی کال سنٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر ملکی خدمات کے اطراف کیلئے محسن پاکستان ایوارڈ متعارف کرایا جا رہا ہے۔بجٹ میں برآمدات کو فروغ دینے کیلئے ایگزم بینک کے ذریعے ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کیلئے مختص رقم کو 3 ارب 80 کروڑ سے بڑھا کر 13 ارب 80 کروڑ کرنے کی تجویزدی گئی ہے ۔ سٹیٹ بینک کے ذریعے 539 ارب روپے کے ایکسپورٹ کریڈٹ کی فراہمی کی جائے گی، حکومت کی ایس ایم ایز حکمت عملی کے تحت ایس ایم ایز کے کریڈٹ کو 540 ارب روپے سے بڑھا کر 11 سو ارب روپے کیا جائے گا، جس میں سے 100 ارب روپے کا اضافہ اگلے مالی سال کے دوران کیا جائے گا، مستقبل میں یہ اقدام پاکستان کے برآمدی شعبے کو ایک اہم لائف لائن فراہم کرے گا۔ خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کر سکیں گی، سی پیک کے دوسرے مرحلے سے ملک میں صنعتی شعبے اور برآمدات میں اضافے کا ایک نیا باب کھلے گا۔ بجٹ میں ماحولیات اورموسمیاتی تبدیلیوں کوبھی اہمیت دی گئی ہے نیشنل کلائمیٹ فنانس سٹرٹیجی اکتوبر 2024 تک تیار کر لی جائے گی جس کا مقصد گلوبل کلائمیٹ فنانس کو پاکستان میں لانا ہے۔ای بائیکس کیلئے 4 ارب اور توانائی کی بچت والے پنکھوں کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، بجٹ میں خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع گلگت بلتستان، اے جے کے، بی آئی ایس پی، ایچ ای سی، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کے فروغ کیلئے 1777 ارب روپے مختص کرنے تجویز ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کے شعبہ میں ہائی ویز کے نیٹ ورک کو بہتربنانے، بڑے شہروں اورعلاقوں کے درمیان رابطے بڑھانے، اورٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کو سنبھالنے کیلئے موجودہ بنیادی ڈھانچہ کوجدید بنانے کے منصوبوں پرتوجہ دی گئی ہے، مزیدبرآں ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جن کا مقصد ملک کے توانائی کے بنیادی ڈھانچہ کو وسعت دینا اور جدید بنانا ہے، جن میں ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر، سولر پاور پلانٹس کی تنصیب، اور ٹرانسمیشن لائنیں بچھانا شامل ہیں تاکہ بجلی کی موثراورفعال تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے اور توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔سیلاب میں کمی اور زرعیوگھریلو استعمال کے لیے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیموں، آبپاشی کے نظام، اور نکاسی آب کے نیٹ ورکس کی تعمیر کے ذریعے پانی کے وسائل کوموثرانتظام وانصرام خصوصی توجہ دی جائے گی۔ یہ منصوبے بنیادی ڈھانچہ کو ترقی دینے اور ٹرانسپورٹیشن، توانائی اور آبی وسائل کے انتظام میں در پیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں تاکہ اقتصادی ترقی میں مدد ملے اور شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔ اگلے مالی سال کی پی ایس ڈی پی میں انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے آٹھ سو چوبیس ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز ہے جس میں سے توانائی کے شعبہ کے لیے 253 ارب روپے، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن سیکٹر کے لیے 279 ارب روپے، واٹر سیکٹر کے لیے دو سو چھ (206) ارب روپے جبکہ پلاننگ اور ہا ئوسنگ کے لیے چھیاسی (86) ارب روپے شامل ہیں۔ سماجی شعبے کے لیے رواں سال میں دو سو چوالیس (244) ارب روپے کے مقابلے میں دو سو اسی (280) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے بجٹ میں تمام شراکت داروں کی مشاورت سے کراچی کے انفراسٹرکچر کو جدت کی طرف لیجانے کیلئے جامع کراچی پیکیج کی تجویز دی گئی ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور بے نظیر آباد کے لیے بھی منصوبے مرتب کرنے کی تجویز ہے۔اسی طرح کراچی کو پانی کی سپلائی بہتر بنانے کے لیے 4ـK منصوبے کے لیے ایک خطیر رقم رکھنے کی تجویز ہے تاکہ اس اہم منصوبے کو تکمیل کی طرف لے جایا جائے وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد کے ہسپتالوں کوجدید بنانے کرنے کے لیے جامع پلان مرتب کیا جائے گا تاکہ اسلام آباد، راولپنڈی، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور گردو نواح کے علاقوں کی عوام کو علاج معالجہ کی جدید سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ خاص طور پر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزاورقائداعظم ہیلتھ ٹاور کے نام سے ایک نیا منصوبہ شروع اوراسکے لیے ایک خطیر رقم رکھنے کی تجویز ہے۔ ٹیکس پالیسی کے حوالہ سے اقدامات کاذکرکرتے ہوئے ۔ نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیلئے کئی اقدامات کی تجاویز دی گئی ہے۔تاجر دوست سکیم کے تحت 30 ہزار 400 تک رجسٹریشن ہو چکی ہے، آنے والے وقت میں ایف بی آر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرے گا۔ مالیاتی استحکام کیلئے وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کرے گی ، اس عمل کو تقویت دینے کیلئے تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع قومی مالیاتی معاہدہ کی تجویز دی گئی ہے ۔ وفاقی حکومت کی تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے سالانہ 45 ارب روپے کی بچت کا امکان ہے، وفاقی حکومت کے حجم اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطح اور بااختیار کمیٹی تشکیل دی گئی جو حکومتی ڈھانچے کا بغور جائزہ لے گی اور اگلے ڈھائی ماہ میں اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔