شی آن (شِنہوا)چین میں زیر تعلیم پاکستانی طالبہ فرحانہ کمبھار نے کہا ہے چین میں تعلیم حاصل کرنے سے انہیں گندم کی نئی اقسام پیدا کرنے شوق ہوا جو پاکستان میں موسم بہار کی گندم پیدا کرنے والے اہم علاقوں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔پاکستان کے 2 طلبا عدنان نسیم اور فرحانہ کمبھارچین کے شمال مغربی صوبے شانشی کے شہر یانگ لینگ واقع نارتھ ویسٹ اے اینڈ ایف یونیورسٹی کے زرعی کالج کے تجرباتی کھیتوں میں گزشتہ 2 ہفتے سے رواں سال کے "تھری سمرز” کے تحت کام کر رہے ہیں۔
چین کے کئی حصوں میں تھری سمرز موسم گرما کی کٹائی، پودے لگانے اور گندم، مکئی اور ریپ سیڈ جیسی فصلوں کا موسم گرما میں انتظام سے متعلق ایک عام اصطلاح ہے۔ عام حالات میں کسان فصلوں کی کٹائی کے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں مئی کے اختتام سے وسط جون تک ذخیرہ کرنا پڑتا ہے۔ "تھری سمرز” میں کٹائی اور بوائی کسانوں کی سالانہ فصل پر اہم اثرات مرتب کرتی ہے۔زرعی یونیورسٹی پشاور اور سندھ زرعی یونیورسٹی سے 2022 میں ماسٹرز کرنے کے بعد نسیم اورفرحانہ کمبھار کو چینی حکومت کی جانب وظائف ملے اور انہوں نے یانگ لینگ میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل کیا ہے جسے "چائنہ ایگریکلچرل سائنس سٹی” کہا جاتا ہے۔تیار گندم کے معیار اور خصوصیات کی جانچ پڑتال نسیم اورفرحانہ کمبھار کی حالیہ مصروفیات ہیں ۔ اپنے چینی ہم جماعتوں کے ساتھ ملکر انہوں نے گندم کے نمونے جمع کئے، ان تجزیہ کیا اور اس پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کے کام سے جرم پلازمہ وسائل بینک کو بھرپور وسائل ملے۔اگرچہ سورج کی تپش بہت تھی تاہم ان کی سنجیدگی سینئر ماہرین کی طرح تھی جنہیں گندم کی افزائش میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔نسیم نے کہا کہ آٹا پاکستانیوں کی بنیادی غذا میں سے ایک ہے لیکن چونکہ زیادہ تر اناج کے کھیت پہاڑی علاقوں میں واقع ہیں اس لیے مٹی میں نامیاتی مادے کی مقدارکم ہے یہاں آب پاشی کی سہولیات بھی ناپید ہیں ۔ گزشتہ 5 برس کے دوران پاکستان میں گندم کی اوسط پیداوار 2.9 ٹن فی ہیکٹر ہے جو چینی اوسط کا نصف ہے۔نسیم نے کہا کہ چین گندم کی افزائش نسل میں دنیا میں سرفہرست ہے خاص طور پر حالیہ عشروں میں چین نے خشک زمین کی زراعت میں بڑی پیشرفت کی ہے اور گندم کی ایسی نئی اقسام کی ہرسال کامیابی سے کاشت کی جن کی پیداوار زیادہ اور حالات کے موافق تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چین میں ہوانگ ہوائی ہائی گندم کا ایک اہم پیداواری علاقہ ہے جہاں اوسط فی ہیکٹر پیداوار 7.5 ٹن سے زائد ہوچکی ہے جو ہماری نگاہ میں ایک معجزہ ہے چینی اساتذہ سے گندم کی افزائش کی جدید ٹیکنالوجی سیکھنا اور پاکستان کے بنجر پہاڑوں میں پودے لگانے کے لئے موزوں گندم کی اقسام کی افزائش کرنا ہمارا بنیادی مقصد ہے۔فرحانہ کمبھار نے کہا کہ چین میں ان کی تحقیقی تجربے نے انہیں "تجربے کی افزائش” سے "درست افزائش نسل” میں تبدیلی کے قابل بنایا۔ "مالیکیولر بریڈنگ شعبے میں چینی گندم کی افزائش کے ماہرین کی مہارت نے مجھے گندم کے ہر پودے کی اسپائیک لمبائی، اونچائی، معیار وغیرہ کو درکار ضروریات سے آگاہی دی ہے۔ اس سے گندم کی افزائش نسل میں گزشتہ خاصیات کو تبدیل اور جین کا انتخاب بھی زیادہ سخت کردیا۔نارتھ ویسٹ اے اینڈ ایف یونیورسٹی کے زرعی کالج میں ماسٹرز کے طالب علم ژاؤ چھن لونگ کئی برس سے نسیم اورفرحانہ کمبھار کے ساتھ افزائش نسل میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فصلوں کی افزائش میں کافی وقت لگتا ہے اور ایک نئی قسم کی کامیاب افزائش کا مطلب اکثر سے بہت سی ناکامیاں اور نئے سرے سے کام شروع کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین میں نسیم اورفرحانہ کمبھار کی تعلیم 2027 میں مکمل ہوجائے گی وہ اپنا ایک تہائی وقت تجرباتی کھیتوں میں گزارتے ہیں اور باقی 2 تہائی لیبارٹری میں بنیادی تحقیق جیسے گندم کی بوائی، تھرشنگ اور وزن کی پیمائش میں گزارتے ہیں جبکہ چینی طالب علم ان کی سنجیدگی کی تعریف کرتے ہیں۔نسیم اورفرحانہ کمبھار کے نگران اور یونیورسٹی میں فصلوں کی جینیات اور افزائش نسل کے پروفیسر نی شیاؤجون ہیں۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے گندم کے جینومکس، خشک سالی اور نمکیات کی برداشت کے ساتھ اعلیٰ معیار کے گندم کے جرم پلازم کی دریافت، شناخت، جنگلی گندم کے جرم پلازم کو جمع اور انہیں محفوظ کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ان کی ٹیم نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں حصہ لینے والے پاکستان، بنگلہ دیش، مصر اور دیگر ممالک کے زرعی گریجویٹ طالب علموں کو بتدریج جگہ دی ہے ۔ یونیورسٹی کے گندم اور دیگر فصلوں کے جرم پلازم کے وسائل کے بینک کی معاونت سے بین الاقوامی طالب علموں نے چین میں گندم کی موجودہ اقسام کی بابت معلومات حاصل کیں اور اپنے ملک کے قدرتی وسائل کے لئے موزوں ٹھنڈ کے خلاف مزاحمت کرنے والی اور نمکین-الکلی برداشت کرنے والی اقسام کی افزائش نسل کی اورکچھ نئی اقسام کو بھی کامیابی سے پروان چڑھایا گیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ انہوں نے چین کے تحقیقی نتائج کو اپنے طریقوں پر لاگو کیا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو عملی جامہ پہنانے میں اعلیٰ تعلیم کے تبادلے اور تعاون اہم اقدامات ہیں۔ گزشتہ دہائی میں صوبہ شانشی کی نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فارسٹری یونیورسٹی اور نارتھ ویسٹ یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں حصہ لینے والے ممالک کے ایک لاکھ سے زائد بین الاقوامی طالب علموں کو بتدریج داخلہ دیا اور بڑی تعداد میں پیشہ ورانہ ، تکنیکی اور انتظامی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔