تحریر : راؤ محمد جمیل
حال ہی میں ایک طاقتور شخصیت کی خصوصی نوازش سے ضلع ملیر پولیس کی کمان سنبھالنے والے ایس ایس پی کاشف آفتاب احمد عباسی نے تھانوں کے برق رفتار دورے کرنے کے بعد شہریوں کو فراہمی انصاف کیلئے کھلی کچہریوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا جو انتہائی خوش گوار اور خوش آئند عمل ہے ابراہیم حیدری تھانے میں پولیس افسران ، اہلکاروں اور عوام کی بڑی تعداد میں موجوده کے دوران ایس ایس پی ملیر کاشف آفتاب عباسی اچانک جذباتی ہوگئے اور انتہائی جارہانہ انداز دیکھنے میں آیا انھوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہاری صفوں میں بلیک میلر ، بھتہ خور اور مختلف جرائم کے سہولت کار موجود ہیں اگر کسی صحافی کو اسکا اداره تنخواه نہیں دیتا تو وہ اداره تبدیل کرے انھوں نے کہاکہ میری پولیس کسی صحافی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوگی ایسے عمل کے مرتکب صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج ہونگے پھیر تمہارا جو دل چاہیے لکھتے رہنا …. میں ایک پیشہ ور صحافی کی حیثیت سے ایس ایس پی ملیر کاشف آفتاب عباسی کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ محترم آپ شاید صحافیوں کے بارے میں حقائق اور انکے کردار سے ناواقف ہیں آپ شائد انہیں صحافی سمجھتے ہیں جو چند ہزار روپے کے عوض مختلف غیر مستند ، جعلی اخبارات اور خود ساختہ ویب چینل کے پریس کارڈز حاصل کرکے صحافی کہلاتے ہیں یا کسی بد نام چینل کی نمائندگی خرید کر روزگار کماتے ہیں آپکی اطلاع کیلئے عرض ہےکہ ایسے افراد صحافی نہیں جعلی صحافی کہلاتے ہیں انکو تو صحافت کی الف ، ب تک کی خبر نہیں ایسے جعلی صحافیوں کی بڑی تعداد آن پڑھ اور جاہل ہیں خبر بنانا تو بڑی بات لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے لیکن آپکی پولیس نے ہی ایسے جعلی صحافیوں کو اصلی بنا رکھا ہے ان جعلی صحافیوں کو اپنے ذاتی مفادات اور مخالف پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا اور خودساختہ ویب چینلز پر غیر معیاری خبریں وائرل کروانے والے بھی آپکے پولیس والے ہی ہیں آپکے ضلع ملیر میں پولیس پیشہ ور صحافیوں سے زیاده عزت ان جعلی صحافیوں کو دیتی ہے کیونکہ گٹکے ماوے، دیگر گھناونے دھندے اور لینڈ مافیا سے مالی معاملات طے کرانے میں بھی یہی جعلی صحافی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں محترم کاشف آفتاب عباسی صاحب صحافی اُسے کہتے ہیں جو ماہانہ تنخواه پر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرتا ہے کڑی دھوپ ، ناخوش گوار موسم اور گولیوں کی بچھاڑ میں زندگی داؤ پر لگا کر سچ تلاش کرتے ہوئے حلال کی مشکل ترین روزی کماتا ہے میڈیا پر کڑا وقت ضرور ہے لیکن آج بھی صحافی چند ٹکوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتے ملیر میں عرفان ساگر ، شاہد غزالی، اسد الله خان ، بشیر احمد، فیاض یونس اور حمید سومرو جیسے قد آور صحافی بھی رہتے ہیں جو پولیس افسران کے دفاتر کے چکر نہیں لگاتے انکی خوشامد نہیں کرتے بلکہ اصولوں کو مقدم رکھتے ہیں آپکو اندازه نہیں کہ 30 سال سے زائد عرصہ بڑے اور صف اوّل کے صحافتی اداروں سے وابستہ رہنے والے بیشتر صحافی کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں اور انتہائی کمپسری کی زندگیاں گزار رہے ہیں انکے بچے اسکول کالج نہیں جاتے کیونکہ مہنگائی کے اس دور اور قلیل تنخواه میں با مشکل روکھی سوکھی کھا کر اذیت ناک زندگیاں بسر کررہے ہیں لیکن صحافت کے پیشے کی عزت اور وقار کا سودا نہیں کرتے محترم کاشف عباسی صاحب آپکی بہترین کاوشوں اور کردار کو سراہنے والے اور آپکو ہیرو قرار دیکر چند ایام میں عوامی حلقوں میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے کیلئے کردار ادا کرنے والے بھی یہی صحافی ہیں جو نا کبھی آپ سے ملے ہیں اور نا ہی مراسم کے خواہش مند ہیں جنہوں نے آپکی اور آپکی پولیس کیلئے کبھی کبھی سچ بولنے اور لکھنے سے صرف اس لیے گریز کیا کہ اس سے جرائم پیشہ عناصر اور مافیا کو فائده پہنچ سکتا تھا آپ پہلے اپنی ملیر پولیس کو صراط المستقيم پر لائیں کیا آپ ضلع بھر کے کسی ایک بھی تھانے کے ایس ایچ او یا ہیڈ محرر کا نام بتا سکتے ہیں جو آج بھی اپنے علاقے میں چلنے والے کسی غیر قانونی دھندے سے وصولی نہ کرتا ہو …..؟ محترم کاشف عباسی صاحب نامور اور دیانت دار ترین پولیس افسر ڈاکٹر ثناء الله عباسی اور غلام نبی میمن بھی ماضی میں بطور ایس ایس پی ضلع ملیر میں ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں آج بھی ملیر کے عوام مذکوره افسران کو انتہائی عقیدت، محبت اور احترام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے جرائم پیشہ افراد اور طاقت ور مافیاز کے خلاف اور عوام کو فراہمی انصاف کے کیلئے ریکارڈ اور تاریخی کردار ادا کیا لیکن انھوں نے بھی صحافیوں کیلئے آپ جیسے الفاظ کبھی ادا نہیں کیئے کیونکہ صحافی تو آئینے کا کردار ادا کرتے تھے کرتے ہیں اور بغیر کسی ڈر، خوف اور دھمکی کے انشاء الله کرتے رہیں گئے آپ میرٹ اور دیانت داری کی پالیسی اور روایت برقرار رکھیں گئے تو بغیر کسی لالچ اور مفاد کے آپکی کاوشوں کو اجاگر کرینگے آپ یا آپکی پولیس ظلم ، ناانصافی یا کسی جرم کی سہولت کاری کی مرتکب ہوئی تو بھی حقائق ڈنکے کی چوٹ پر لکھیں گئے
ہمارے ذھن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
ہم جو محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں