اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )پاکستان ادارہ شماریات نے ملک بھر میں ورکشاپس کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کا مقصد پاکستان کی ساتویں زراعت شماری کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مربوط ڈیجیٹل شمار کے نقطہ نظر سے استفادہ کرتے ہوئے اس زراعت شماری کا مقصد زرعی سائنس دانوں، ماہرین تعلیم، محققین، زرعی کاروبار سے وابستہ افراد، پالیسی سازوں اور عام لوگوں کو شامل کرنا ہے۔چوتھی آگاہی ورکشاپ پیر 10 جون کو بلوچستان ایگریکلچر کالج کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ اس سلسلے کی پہلی ورکشاپ 27 مئی 2024 کو سندھ یونیورسٹی آف ایگریکلچر ٹنڈوجام، حیدرآباد دوسری 30 مئی 2024 کو یونیورسٹی آف ایگریکلچر پشاور جبکہ تیسری ورکشاپ 5جون 2024 کو یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد میں منعقد ہوئی۔ یہ ورکشاپس اس اہم قومی مشق میں وسیع تر آگاہی اور شرکت کو فروغ دینے کے لئے پاکستان ادارۂ شماریات کے جاری عزم کی ترجمانی کرتی ہیں۔ورکشاپ میں ماہرین تعلیم، طلباء محققین اور صوبائی و ضلعی حکومتی اداروں کے سینئر حکام بھی شریک ہوئے۔ چونکہ صوبائی حکومتیں اس عمل میں پاکستان ادارۂ شماریات کے ساتھ شراکت دار ہیں لہذا زراعت، لائیو سٹاک، کراپ رپورٹنگ سروس، بیورو آف سٹیٹسٹکس ، بورڈ آف ریونیو اور تعلیم جیسے اہم صوبائی محکموں کے نمائندوں نے بھی زراعت شماری سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔چیف سینسس کمشنر پاکستان ادارہ شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر (ستارۂ امتیاز)نے زرعی شعبے کی ترقی اور درست سرمایہ کاری کے لیے شواہد پر مبنی پالیسی سازی کے لئے صحیح، بروقت اور قابل اعتماد اعداد و شمار کی فراہمی میں زراعت شماری کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔ترجمان پاکستان ادارہ شماریات محمد سرور گوندل (ستارۂ امتیاز )، ممبر (سپورٹ سروسز/ ریسورس مینجمنٹ) نے ساتویں زراعت شماری کے موقع پر شرکاء کو پاکستان ادارہ شماریات کے حالیہ اقدامات بالخصوص خطے کی سب سے بڑی مشق، ساتویں خانہ و مردم شماری اور مختلف سروے کے بارے میں آگاہ کیا جس کا مقصد شواہد پر مبنی پالیسی سازی کے لئے اعداد و شمار فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے زراعت شماری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ زراعت کے شعبے کا پاکستان کی جی ڈی پی میں 24 فیصد جبکہ افرادی قوت میں 37 فیصد حصہ ہے۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔اتنی بڑی آبادی والے ملک کے لئے غذا کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک بڑا کام ہے جو کہ مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔موثر پالیسی سازی کے لئے درست اور تازہ ترین اعداد و شمار کی فراہمی کے لئے انہوں نے منظم انتظام اور کنٹرول کے لئے زراعت شماری میں ڈیجیٹل حل کے نفاذ پر زور دیا۔ محمد سرور گوندل نے ملک بھر میں فیلڈ دفاتر اور 157 ضلعی دفاتر پر مشتمل وسیع آپریشنل نیٹ ورک اور اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے آئی ٹی ٹولز کے استعمال کے بارے میں بھی آگاہ کیا انہوں نے اگست 2024 میں شروع ہونے والی زراعت شماری کے فیلڈ آپریشنز کے لئے ٹائم لائن کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے بڑے زرعی گھرانوں کے اعداد و شمار حاصل کئے جائیں گے اور بعد میں باقی زرعی گھرانوں کا شماراگلے مراحل ستمبر اور اکتوبر میں ہو گا ۔ انہوں نے ایک مضبوط تربیتی پروگرام کے نفاذ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ زراعت شماری کے ماسٹر ٹرینرز اسلام آباد میں تربیت حاصل کرنے کے بعد ضلعی سطح پر تربیتی سیشن منعقد کریں گے۔انہوں نے اعداد و شمار کے مکمل تجزیے کے بعد ستمبر 2025 میں زراعت شماری کی حتمی رپورٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔بلوچستان کے ریونیو منسٹر میر محمد عاصم کرد گیلو نے اس قومی سرگرمی کو آگے بڑھانے میں پاکستان ادارۂ شماریات اور زراعت سے وابستہ دیگر صوبائی محکمہ جات کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے زرعی شعبے میں باخبر پالیسی سازی اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری کے لئے بروقت اور درست اعداد و شمار کی اہمیت پر زور دیا۔کالج کے پرنسپل پروفیسر لطف اللہ کھوسو نے اپنے خطاب میں ملک کی زرعی پالیسیوں اور پروگراموں کی تشکیل کے لئے درست اعداد و شمار فراہم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ساتویں زراعت شماری کے موثر نفاذ کے لئے اپنے ادارے کے بھر پور تعاون کا یقین دلایا اور زرعی شعبے کی ترقی ، وسائل کو بہتر بنانے اور جدت کو فروغ دینے کے شعبوں کی نشاندہی میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔