اسلام آباد( نمائندہ خصوصی)وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے انٹرنیٹ گیٹ ویز پر نیشنل فائر وال کی تنصیب کا عمل شروع کر دیا۔فائر وال کی تنصیب کے بعد سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہونے والے کسی بھی غیر قانونی اور قابل اعتراض مواد کو نہ صرف یہ کہ فوری طور پر ہٹایا جاسکے گا بلکہ ایسا مواد اپلوڈ کرنے والے شخص کی بلاتاخیر شناخت بھی ممکن ہو جائے گی۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس(ر)شوکت عزیز صدیقی نے سنہ 2017 میں ناموس رسالت ﷺ کیس کے فیصلے میں وفاقی حکومت کو سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے سدباب کے لئے فائر وال کی تنصیب کا حکم دیا تھا۔تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے مرکزی صدر علامہ قاری نوید مسعود ہاشمی اور جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد نے اپنے بیان میں نیشنل فائر وال کی تنصیب کو اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث کوئی بھی مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے نہیں بچ سکے گا۔سنہ 2017 میں جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے فائر وال کی تنصیب کا حکم دیا تھا،اگر اسی وقت ہی اس پر عمل کر لیا جاتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ سوشل میڈیا پر نہ تو مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس محفوظ ہے اور نہ ہی ریاستی اداروں کا تقدس۔تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے بے لگام سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے انٹرنیٹ گیٹ ویز پر نیشنل فائر وال کی تنصیب کا عمل شروع کر دیا ہے۔یہ فائر وال سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی طرز پر کام کرے گا۔اس فائر وال کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔فائر وال کا یہ نظام چین سے لیا گیا ہے۔اس فائر وال کی مدد سے غیر قانونی اور قابل اعتراض مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے والے اکاؤنٹس کے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریسز فوری طور پر حکومت کو دستیاب ہوں گے اور ایسا مواد اپلوڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔یہ فائر وال سسٹم بنیادی طور پر انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگایا جارہا ہے۔جہاں سے انٹرنیٹ اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے۔اس فائر وال کی مدد سے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد اور ریاست مخالف مہم کا سدباب ممکن ہو جائے گا۔ایسے کسی بھی مواد کو اس فائر وال کی مدد سے بلاک کیا جاسکے گا۔اس نظام کی مدد سے کسی مواد کے ماخذ(اوریجن)یعنی جہاں سے اس کا آغاز ہوا ہو،اس بارے میں بھی فوری مدد مل سکتی ہے اور آئی پی ایڈریس سامنے آنے کے بعد ایسا غیر قانونی اور قابل اعتراض مواد کو بنانے والے کے خلاف کارروائی بھی ممکن ہو سکے گی۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس(ر)شوکت عزیز صدیقی نے سنہ 2017 میں سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف مقدمہ بعنوان سلمان شاہد بنام وفاق پاکستان وغیرہ کے فیصلے(2017 پی ایل ڈی اسلام آباد 218)میں بھی فائر وال کی تنصیب کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ”اس فتنہ گیری اور شرانگیزی کے خلاف ریاست کو مستقل بنیادوں پر ایک آتشی دیوار (Fire Wall) کھڑی کرنے کی ضرورت ہے اور ایک ایسا ادارہ تشکیل پانا چاہیے،جس میں ملک کی نظریاتی،جغرافیائی اور انتظامی امور سے متعلق افراد شامل ہوں۔جو ہمہ وقت اس طرح کی تخریبی کاروائیوں کی بیخ کنی کریں اور تخریبی عمل میں شریک عناصر کو قانون کے مطابق برتاؤ کے لئے متعلقہ عدالتوں کے حوالے کریں۔تاکہ قانون کی منشاء کے مطابق ان کی سزا و جزاء کا فیصلہ ہو سکے”۔