دنیا میں جسے "مین سٹریم میڈیا” کہا جاتا ہے بھارت میں اس کے نمائندہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی اکثریت نریندر مودی کی سرپرستی میں مختلف دھندوں کے اجارہ دار ہوئے سیٹھوں نے خرید رکھی ہے۔ ان میڈیا ہائوسز سے آزاد منش صحافیوں کو چن چن کر فارغ کروادیا گیا۔ نوکری سے فراغت بھی ان کی "جاں بخشی” یقینی نہ بناپائی۔ سوشل میڈیا پر چھائے ہندوانتہا پسندوں نے انہیں بدی کی علامتیں ہی بنائے رکھا۔ ویسا ہی سلوک جو ہمارے ہاں ایک مخصوص جماعت کے حامیوں نے "لفافہ” صحافیوں کے بارے میں اختیار کررکھا ہے۔
بہرحال مودی کی سرپرستی میں پھلتے پھولتے سیٹھوں کا غلام ہوئے میڈیا نے جسے حقارت سے "گودی میڈیا” کہا جاتا ہے کئی مہینوں سے یہ فضا بنائی ہوئی تھی کہ 2024ء کے انتخاب کے ذریعے بھارت کی حکمران جماعت لوک سبھا کی 543میں سے 400 سے زیادہ نشستیں جیت لے گی۔ اس کے نتیجے میں آر ایس ایس کے پرچارک سے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچا نریندرمودی جواہرلال نہرو کے بعد مسلسل تیسری بار اپنے عہدے پر قائم رہے گا۔
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کہلاتے بھارت میں مسلسل 15برس تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنا ہر اعتبار سے ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ اس کے حصول کے بعد "تاریخ بنانے والا” مزید کیا کرنا چاہتا ہے۔ مثال کے طورپر 1962ء میں جواہرلال نہرو تیسری بار وزیر اعظم ہوا تو چین کے ساتھ سرحدی معاملات طے کرنے کی ٹھان لی۔ اس کی کاوش بھارت-چین جنگ کا سبب ہوئی۔ اس کے نتیجے میں بھارت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شکست سے مجبور ہوکر نہرو نے مسئلہ کشمیر کاحل ڈھونڈنے کے لئے شیخ عبداللہ کو اپنا ایلچی بناکر پاکستان بھیجا۔ موصوف کے دورہ پاکستان کے دوران ہی لیکن نہرو کا دیہانت ہوگیا اور پاک-بھارت تعلقات 1965ء کی جنگ کی جانب بڑھنا شروع ہوگئے۔ مذکورہ تناظر میں غور کریں تو یہ پیغام بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھارتی وزیر اعظم کا من "کچھ بڑا” کرنے کو مچلتا ہے اور یہ خواہش تباہی کی جانب بھی لے جاسکتی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کے مداح مگر پْریقین تھے کہ "اب کی بار چار سو پار” کا خواب پورا ہوگیا تو نریندر مودی دوتہائی اکثریت کے بل بوتے پر بھارتی آئین کو بد ل کر انڈیا کو سیکولر کے بجائے ہندواکثریتی ملک کی شناخت دے گا۔ اس کے علاوہ بھارتی مسلمانوں کو میسر اوقاف (مساجد اور مزاروں سے منسلک زمینوں اور دوکانوں سے آمدنی کا نظام) اور دینی اعتبار سے ہوئی طلاق کی سہولت اورحق بھی چھین لئے جائیں گے۔ بھارت کو فقط ہندو اکثریت کا ملک بنالینے کے بعد نریندر مودی کیا کرے گا؟ اس کے بارے میں راوی خاموش ہے۔ میرے کئی بھارتی دوست مگر اپنی خاموشی سے یہ پیغام بھی دیتے رہے کہ تیسری بار بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نریندرمودی ہندواکثریت کو اس نفسیاتی کمتری کے احساس سے ہمیشہ کیلئے آزاد کردے گا جو ان کی دانست میں”باہر سے آئے” مسلمانوں نے اپنے ہزار سالہ اقتدار کے دوران ان کی نسلوں تک منتقل کیا تھا۔
نریندر مودی کے حوالے سے "اب کی بار چارسوپار” کے دعوے سن کر میں خاموش ہوجاتا۔ 1984ء میں پہلی بار بھارت جانا ہوا تھا۔ اس کے بعد کئی برس تک سال کے کم ازکم چھ مہینے وہاں قیام پذیر رہتا۔ بھارت آخری بار مگر 2010ء میں گیا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان کی سیاست ہی میری توجہ کا مرکز رہی ہے۔ برسرزمین حقائق سے لاعلم ہوتے ہوئے میرے پاس "اب کی بار چار سوپار” کے دعوے کو جھٹلانے کے دلائل موجود نہیں تھے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بھارتی میڈیا کا سرسری جائزہ لیتا تو خیال آتا کہ شاید بھارتی جنتا پارٹی کیلئے 2024ء کے انتخاب کے دوران "اب کی بار چار سو پار”کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔
بھارتی انتخاب کا مرحلہ شروع ہوا تو چند واقعات نے مگر سوچنے کو مجبور کردیا۔ انتخاب کے پہلے مرحلے میں ٹرن آئوٹ ماضی سے کم ہونے کی خبر ملی۔ کم ٹرن آئوٹ کو بی جے پی کے حامی صحافیوں نے اس جماعت کی بالادستی بناکر پیش کیا۔ ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بی جے پی کی مخالف جماعتوں کے پاس نریندر مودی کے مقابلے کا کوئی لیڈر ہی موجود نہیں۔ ایک طاقتور متبادل کی عدم موجودگی مودی کے بدترین مخالفین کو بھی شکست زدہ ذہن کے ساتھ پولنگ کے روز گھر بیٹھے رہنے کو مجبور کررہی ہے۔ مودی کے مخالفوں کے برعکس اس کے حامیوں کو یقین ہے کہ وہ "اب کی بار چارسوپار” کا خواب ہر صورت پورا کرلے گا۔ اس امید پر بی جے پی کے کڑحامیوں کے سوا مودی کے عام پرستاروں نے بھی گھروں سے نکلنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
کم ٹرن آٶٹ کی خبروں نے لیکن میرے صحافیانہ تجسس کو انگیخت دی۔ تھوڑی توجہ دی تو دریافت ہوا کہ جن حلقوں میں بی جے پی کے مقابلے میں کوئی تگڑا امیدوار کھڑا ہے ان حلقوں میں ٹرن آٶٹ ماضی کے مقابلے میں بہتر نہیں تو کم از کم برابر تو یقینا نظر آرہا ہے۔ ٹرن آٶٹ کم ہونے کی خبروں ہی نے چند حلقوں پر خصوصی توجہ دینے کو اْکسایا۔ اس ضمن میں حیرانی اترپردیش نے فراہم کی۔
عام زبان میں یوپی کہلاتا اترپردیش آبادی کے اعتبار سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ وادی گنگ وجمن سے وابستہ تاریخ وتہذیب کا گڑھ ہے۔ بھارتی اشرافیہ کا مرکز بھی شمار ہوتا ہے۔ سلطنت اودھ کے زوال کے بعد برطانوی دور میں ہندی-اردو قضیے کا آغاز اسی صوبے سے ہوا تھا۔ یہ قضیہ ہی بالآخر مسلمانوں کو دو قومی نظریہ کی جانب راغب کرنے کا سبب ہوا۔ بابری مسجد کا قضیہ بھی اسی صوبے سے شروع ہوا تھا جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو کانگریس کی متبادل جماعت بنا کر ابھرنے میں کلیدی مدد فراہم کی تھی۔ یوپی کا وزیر اعلیٰ اب ایک انتہاپسند "یوگی” ہے جسے مودی کا مستقبل میں متبادل بھی تصور کیا جارہا ہے۔
مودی اور یوگی نے مل کر بابری مسجد کی توڑ پھوڑ کے بعد ایک وسیع وعریض "رام مندر” بنادیا ہے۔ اس کے علاوہ اسی صوبے میں گنگا اور جمنا کے پانیوں کے ملاپ والے مقام پر ہوئے میلے کو قومی تہوار کی صورت دینے کے لئے جدید ترین سہولیات بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ ان سہولتوں کے بعد تجزیہ نگاروں کی اکثریت نے یہ طے کرلیا کہ یوپی میں نریندر مودی اور اس کی جماعت کو شکست دینا ناممکن ہے۔ اس خیال کو تقویت اس حقیقت نے بھی پہنچائی کہ راہول گاندھی اپنی ماں، نانا اور پرنانا کے آبائی صوبے سے "بھاگ” کر کیرالہ کے ایک حلقے سے لوک سبھا کیلئے کھڑا ہوا۔ امیٹھی نامی قصبے سے جندچھڑاتا نظر آیا۔ احتیاطاََ رائے بریلی کی ایک نشست سے اگرچہ کاغذات نامزدگی داخل کروادئے۔
یوپی میں جوجماعت برتری لیتی محسوس ہوتجزیہ نگار اسے ہریانہ اور راجستھان جیسے صوبے بھی "بخش” دیتے ہیں کیونکہ یہ سب ہندی بولنے کی وجہ سے یوپی کے "مضافات” ہی تصور ہوتے ہیں۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کی اکثریت ہندی بیلٹ کو "مودی کے سپرد” کردینے کے بعد اپنی توجہ اس سوال پر مرکوز کرتی نظر آئی کہ بی جے پی بھارت کے جنوبی صوبوں خاص طورپر تامل ناڈو، آندھرا اور تلنگانہ میں کتنی نشستیں حاصل کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی زیر بحث رہا کہ مغربی بنگال کی ممتابنیرجی سے نریندر مودی کتنی نشستیں چھیننے میں کامیاب ہوگا۔
پنجابی کا ایک محاورہ ہے "اگاّ دوڑتے پچھا چوڑ” سادہ ترین اردو میں اس کا مفہوم ہے کہ سوچے سمجھے بغیر آگے بڑھتے جانا آپ کی بنیاد یا انگریزی زبان والی بیس کو خراب کرسکتا ہے۔ "اب کی بار چار سو پار” کے حصول کیلئے نریندرمودی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ ہندی بولنے والے تمام صوبوں کو انگریزی زبان کے مطابق Granted for Taken لیتا رہا اور تمام تر توجہ 400پار کرنے کے لئے بھارت کے جنوبی صوبوں اور اضلاع میں جارحانہ انتخابی مہم چلانے پر مرکوز رکھی۔ یوپی کے محاذ کو یکسر نظرانداز کردیا۔
یوپی کو اپنی جیب میں پڑا تصور کرتے ہوئے اس نے جو خلا پیدا کیا اسے بھارتی سماج وادی پارٹی کے اکلیش یادیو نے نہایت ذہانت سے پرکیا۔ راہول گاندھی کی بڑی بہن پریانکا گاندھی بھی نہایت جی داری سے عوام میں گھل مل کر گھریلو اور نچلے متوسط طبقے کی عورتوں کی طرح مودی مخالف بیانیے کو گھر گھر پہنچانے میں مصروف ہوگئی۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ پریانکا گاندھی کی چند انتخابی تقاریر اور ٹی وی پر دئے انٹرویو غور سے سننے کے بعد میں یہ طے کرنے کو مجبور ہوا کہ یوپی مودی کے ہاتھوں سرک رہا ہے۔ میرے خدشات کی تصدیق یوگندریادیو نامی ایک تجزیہ کار نے یوپی کے طویل سفر کے دوران مختلف یوٹیوب چینلوں کو دئے انٹرویو کے ذریعے فراہم کرنا شروع کردی۔ 4جون کی شام جو نتائج آئے ہیں انہوں نے لہٰذا مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ انتہا پسند ہندوتوا کے دن تمام ہوئے۔ اب ایک "نئے بھارت” کو جنم لینا ہوگا۔