اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے جمعرات کو یہاں سماعت کی۔بانی پی ٹی آئی بھی بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے موقع پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں، تحریری معروضات میں عدالتی فیصلہ کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے۔ میں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اپنے دلائل تحریر کئے ہیں۔۔خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ چیلنج کی گئیں نیب ترامیم مخصوص تناظر میں کی گئیں۔ کرپشن عوام کے بنیادی حقوق متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا پیسہ لوٹا جانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ نیب قوانین کا اطلاق پبلک آفس ہولڈر پر ہوتا ہے تاہم پبلک آفس ہولڈرز صرف سیاستدان ہی نہیں ہوتے۔جسٹس جمال مندو خیل نے سوال کیا کہ نیب کی کارروائی کے لیے عوام کا اختیار کتنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق تو کوئی بھی شہری شکایت درج کرا سکتا ہے تاہم یہ اختیار نیب کا ہے کہ پتہ کرے کرپشن ہوئی ہے یا نہیں؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں۔ میں بنچ پر اور انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے؟ خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ 90 روز کے نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ 50 کرڑو سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ نیب قانون میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں۔ 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے۔ انہوں نے کہا کہ جو ترامیم اچھی تھیں ان کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ خواجہ حارث نے مزید کہا کہ مشرف دور سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا؟ غیر منتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندگان کے تعینات کردہ افراد بھی پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہیں۔ فیصلہ منتخب نمائندے کرتے ہیں عمل درآمد بیوروکریسی کرتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ رولز کے مطابق پرنسپل اکائونٹنٹ افسر ہی ذمہ دار ہوتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی سیکرٹری کرپشن سے انکار کرے تو سیاستدان کیا کر سکتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ غیرقانونی حکم ماننے والا خود ذمہ دار ہو گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت اس موقع پر ریمارکس میں کہا کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جسٹس سید منصور علی شاہ کی رائے درست تھی یا دو رکنی بنچ کا فیصلہ؟ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ میری رائے میں جسٹس سید منصور علی شاہ کا نوٹ درست نہیں تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف کیس کو پہلے لگایا جانا چاہیے تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر جلد سماعت کی درخواست دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون آیا لیکن وہ پھر بھی چیلنج ہوا اور اس پر حکم امتناع دیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمان کی قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت قانون کو معطل نہیں ختم کر سکتی ہے۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میں معزز چیف جسٹس کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ پارلیمان کا وقار اہم ہے۔ قانون سازی کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس طرح کے حکم امتناع سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔میری رائے ہے کہ قانون معطل نہیں ہو سکتا۔ دریں اثناء وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل تک رسائی نہ دینے کے بیان کی تردید کر دی اور بانی پی ٹی آئی کے موقف کی تردید میں اضافی دستاویزات بھی عدالت میں جمع کرا دیں۔ اضافی دستاویزات کے ساتھ سابق وزیراعظم کی اڈیالہ جیل میں وکلاء سے ملاقات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔حکومت نے عمران خان سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا قید تنہائی میں ہونے کا موقف غلط ہے۔وفاقی حکومت نے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں وکلاء تک رسائی نہ دینے کا موقف اپنایا اگر عدالت مناسب سمجھے تو بانی پی ٹی آئی کے بیان اور حقیقت جانچنے کے لئے کمیشن بھی مقرر کر سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں کتابیں، ایئر کولر، ٹی وی سمیت تمام ضروری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہونے پر بانی پی ٹی آئی نے اپنے دلائل دیئے۔ بعد ازاں عدالت نے فیصلہ کو محفوظ کر لیا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں نیب کا جمع کردہ جواب مسترد کر دیا اور نیب سے 10 سالہ بجٹ کا ریکارڈ طلب کر لیا اور قرار دیا کہ کوئی بھی فریق سات دنوں میں جواب داخل کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے۔