اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ):قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدرمملکت کے خطاب پربحث جمعرات کو بھی جاری رہی اورمختلف جماعتوں کے اراکین نے ملک میں قانون کی حکمرانی اور معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت پر زوردیا، اراکین نے ملک کے عدالتی نظام بالخصوص کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کیلئے کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔جمعرات کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں پی پی پی کے فتح اللہ خان میاں خیل نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب پربحث جاری رکھتے ہوئے کہاکہ صدرمملکت نے تاریخی خطاب کیا ہے، صدرنے اپنے خطاب میں ملک کے تقریباً ہرشعبہ کا ذکرکیا، صدرکے خطاب کے دوران اپوزیشن کارویہ نامناسب تھا۔اپوزیشن کو اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس سے ملک کا وقار متاثر ہو۔انہوں نے کہاکہ صدرآصف علی زرداری نے ماضی میں اپنے اختیارات پارلیمان کومنتقل کرکے اس ادارے کومضبوط کیا۔پی پی پی نے ہمیشہ جمہوریت کیلئے جدوجہدکی ہے۔صدر مملکت نے ملک میں زراعت، ٹیکسٹائل، ایس ایم ایز اور دیگر شعبوں کی ترقی اورفروغ کیلئے اقدامات کی ضرورت پرزور دیاہے۔انہوں نے سیلاب کے متاثرین کوامداری چیک دینے اورعلاقہ میں پمز کی سطح کے اسپتال کے قیام کامطالبہ بھی کیا۔سنی اتحاد کونسل کے سہیل سلطان نے صدرنے اپنے تقریر میں قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے مگرہمارے خلاف غیرقانونی اوربے بنیادمقدمات بنائے گئے ہیں۔ہمارے قائد کے خلاف 200کیسز بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب کو اس ملک کے عدالتی نظام بالخصوص کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کیلئے کام کرنا چاہئیے۔اس سال 23مارچ کو ایک بھی سائنسدان، استاد یا طالب علم کوایوارڈنہیں دیا گیا جو تعلیمی شعبہ کیلئے ہماری ترجیحات کی عکاسی کر رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ مرکز صوبہ کا 1600 ارب روپے کا مقروض ہے، مرکز صوبہ کو بقایا جات اداکرے۔ انہوں نے سابق فاٹا اورپاٹا میں ٹیکس کے نٖفاذ کی مخالفت کی اورکہاکہ 25ویں آئینی ترمیم کا فائدہ سوات اورسابق فاٹا وپاٹا کے عوام کوبھی ملنا چاہئیے۔صدرزرداری نے ماضی میں خود کہا تھا کہ سوات کے عوام نے پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہے۔حفیظ الدین نے کہاکہ صدرمملکت نے اپنے خطاب میں کئی کلیدی شعبوں کی نشاندہی کی ہے جہاں پرکام کرنے کی ضرورت ہے، برآمدات میں اضافہ کیلئے ہمیں کاروبارمیں آسانیاں فراہم کرنا ہوگی اورصنعتوں کے مسائل کوحل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ فلسطین اورغزہ کی صورتحال پر ہمارا موقف جاندار ہونا چاہئیے۔ہمیں فلسطینیوں کی مددکرنی چاہئے۔صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہاکہ صدرمملکت نے اپنے خطاب میں اچھی باتیں کی ہے اورہم سب ان سے متفق ہیں، صدرنے کہاکہ پارلیمانی پراسیس پرعوام کااعتمادہوناچاہئیے مگرجب سیاستدانوں سے زیادہ سرکاری افسر سیاست میں ملوث ہوں تو عوام کااعتماد کس طرح بحال ہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ عوام کااعتماد تب بحال ہوگا جب پارلیمان سپریم ہو اورملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔صدرمملکت نے دہشت گردی کاذکربھی کیاہے، دہشت گردی پھرسراٹھارہی ہے،40 سالوں سے دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کے عوام ظلم کوسہہ رہے ہیں، ۔پھولین بلوچ نے اپنے خطاب میں کہاکہ صدرمملکت کا خطاب جامع تھا مگر اس پراسی دن سے عمل شروع ہونا چاہئے تھا، بدقسمتی سے اس ایوان اوریہاں کی تقریروں پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی اورہمارے مسائل میں اضافہ ہوتاہے۔میراتعلق جس علاقہ سے ہیں وہاں پرلوگوں کوبے پناہ مشکلات کاسامناہے۔صدر مملکت کواپنے خطاب میں کہنا چاہئیے تھا کہ وہ اس مسئلہ کوحل کریں گے، ۔انہوں نے کہاکہ مکران میں ایران کے ساتھ پانچ کراسنگ پوائنٹس بندہیں، وہاں کے عوام کا معاشی قتل ہورہاہے جس کا سدباب ہونا چاہئیے۔ ہمارے روزگارکوکیوں بندکیاجارہاہے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان پسماندہ نہیں ہے بلکہ وہاں کے حقوق غصب کرکے صوبہ کوپسماندہ رکھاگیاہے۔ عادل خان بازئی نے کہاکہ بلوچستان کیلئے تعلیم کا بجٹ 65 فیصدسے کم کرکے 25 فیصدکردیاگیاہے، میری ایچ ای سی سے بھی بات ہوئی ہے اورانہوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے، اس کا نوٹس لینا چاہئیے۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب اورسندھ کے بارڈرز پرپشتونوں کوتنگ کیا جاتاہے، یہ سلسلہ روکنا چاہئیے۔بلوچستان سے گیس نکلتی ہے مگرصوبہ کو نظر اندازکیاجاتاہے۔