کراچی (نمائندہ خصوصی ) معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام غیر منصفانہ ہے جس میں بوجھ صرف غریبوں پر آتا ہے ، کرائے پر رہائش پذیر خاندان بہت ہی زیادہ مشکل میں ہے ، ٹیکس کے بدلے تعلیم ، علاج انصاف سمیت حکومت کوئی سہولیات تک نہیں دیتی ، معاشی بد حالی کے پیش نظر اساتذہ سرکاری تعلیمی ادارے چھوڑ کر نجی تعلیمی اداروں میں چلے گئے، ڈالر کے ریٹ بڑھنے سے ریاست کی آمدن بڑھ گئی لیکن اس میں ریاست کا کوئی کمال نہیں کیونکہ آمدن کے نئے زرائع نہیں بنائے گئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام بجٹ ورک شاپ میں بزنس رپورٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی اور سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ بجٹ کی رپورٹنگ ایک مختلف اور پیچید معاملہ ہوتا ہے اس لئے صحافیوں کی صلاحتیوں کو بروئے کار لانے کے لئے ہر سال بجٹ ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ بجٹ کی رپورٹنگ بخوبی طور پر آگاہی فراہم کی جاسکے۔ کراچی پریس کلب میں بجٹ رپورٹنگ پر ایک روزہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ہم سب اکنامسٹ ہیں اور اپنے مالی امور ایک بجٹ سازی کے تحت ہی سرانجام دیتے ہیں، جن میں آمدن اور اخراجات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ریاستیں بھی اپنا بجٹ اپنی قومی پیداوار اور اخراجات کے درمیان توازن قائم کرکے مرتب کرتی ہیں۔سالانہ قومی بجٹ مرتب کرنے سے تین ماہ پہلے ریونیو ڈپارٹمنٹس تمام اداروں سے اعداد و شمار حاصل کرلیتے ہیں اور نوماہ کے اعداد وشمار کی روشنی میں اگلے تین ماہ کی آمدن کا تخمینہ لگا کر ان کا موازنہ اخراجات سے کیا جاتا ہے۔پاکستان میں اخراجات کے چار ماخذ ہیں ۔جن میں سول ایڈمنسٹریشن جس کے اخراجات کا حجم سب سے کم ہے ،اس کے بعد دفاع، بیرونی قرضہ اور سبسڈی (مراعات) پر ہونے والے اخراجات ہیں۔ سب زیادہ اخراجات سبسڈی پر ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف قرضے ری شیڈول کرتے وقت یا نئے قرضوں کے اجراء کی صورت میں ہر بار سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر ایگریکلچر سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا جارہا ہے، کیونکہ ایگریکلچر سیکٹرکا لین دین بینکنگ نظام کے تحت نہیں ہوتا لہذا یہ شعبہ ٹیکس نیٹ میں آسانی سے نہیں آتاہے۔ اس کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاسکے ہیں۔ حکومتیں ایسے شعبہ جات پر ٹیکس لگاتی ہیں جن کی طلب میں لچک (Elasticity in Demand) کم ہوتی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور ادویہ پر ٹیکس لگانے سے صارف ان کے تصرف میں کمی نہیں لاسکتا ہے لہذا وہ ہر حال میں مطلوبہ اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔ سیلز ٹیکس میں اضافے کا بوجھ بالواسطہ طور پر صارف پر پڑتا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں صارفین 85 فیصد بالواسطہ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ ملکی ضروریات کا زیادہ تر انحصار زرعی مصنوعات پر ہے لیکن زرعی اراضی کو پڑے پیمانے پر رہائشی اور کمرشل مقاصد میں استعمال کرنے کا رجحان سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ صنعتی پیداوار بڑھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل کم ہونے امپورٹ پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں جبکہ ایکسپورٹ بڑھنے کی صورت میں بھاری بھرکم کسٹم ڈیوٹیز کی ادائیگی بھی ڈالرز میں کرنا پڑتی ہے۔ جو قومی معیشت کا خسارہ ہے۔ کاشت کار کو سرپلس فصل کی شکل میں خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ وافر مقدار میں اچھی پیداوار کی صورت میں سپلائی زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے فصل کی قیمت بہت کم ملتی ہے۔ 2021 میں کووڈ کے دوران سجاول میں ٹماٹر کی وافر مقدار میں کاشت ہوئی تھی لیکن اس حساب سے ٹماٹر کی ڈیمانڈ نہیں تھی تو کاشت کار اپنی فصل مویشیوں کو کھلانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس طرح کی صورت حال میں مغربی ممالک میں ایگریکلچرل انشورنس کا کلیہ کاشت کار کی مالی اعانت کے لیے کارگر ثابت ہوتا ہے اور زرعی بیمہ صرف ریاستی ادارے فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے زرعی خسارہ صرف اور صرف کاشت کار ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ایف آئی ایس سی کے تحت صحرائی اور بنجر زمین کو سیراب کرنے کی بات پر کہا کہ جب ہمارے ملک میں پینے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی موجود نہیں ہے تو ہم بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی کہاں سے لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس یا بالواسطہ ٹیکس بڑھانے کے بجائے حکومت کوبراہ راست محصولات میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سرکلر ڈیٹس (گردشی قرضوں) بالخصوص یوٹیلٹیز کے حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنا ہوں۔ پاور سیکٹر میں NTDC کی مونوپلی (اجارہ داری) ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس موقع پر سینئر صحافی بجٹ ماہر سلمان صدیقی نے بھی ورکشاپ کے شرکاء کو بجٹ رپورٹنگ کے حوالے سے اہم معلومات دیں۔ ورکشاپ کے اختتام پر صدر پریس کلب سعید سربازی، جنرل سیکریٹری شعیب احمد اور دیگر عہدیداران نے ڈاکٹر قیصر بنگالی، سلمان صدیقی کفیل احمد ، مظہر علی رضا سمیت ورکشاپ کے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اسناد پیش کیں۔