سرینگر:(مانیٹرنگ ڈیسک )
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر کی قابض انتظامیہ نے علاقے کی ریزرویشن پالیسی پر نظر ثانی کا اعلان کیاجس میں اوپن میرٹ کا حصہ 60فیصد کے مقابلے میں 40فیصد تک محدود کر دیا گیا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اس اقدام سے سیاست دانوں اور شہری حقوق کے کارکنوں میں بحث چھڑ گئی ہے جو میرٹو کریسی پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ نئی پالیسی میں 60%آسامیاں مختلف مخصوص زمروں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کے بارے میں سیاست دانوں اور شہری حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ میرٹو کریسی کو نقصان پہنچے گا اور علاقے میں تقسیم کو فروغ ملے گا۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ 60 فیصدریزرو آسامیاں آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارکنوں سے پر کی جائیں گی جس سے تشویش میں مزید اضافہ ہوا۔نظرثانی کے نتیجے میں اوپن میرٹ کی آسامیوں میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے میرٹو کریسی اور ریزرویشن کے درمیان توازن پر بحث شروع ہوئی ہے۔ اس اقدام کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد علاقے کی اکثریتی آبادی کو جو مسلمان ہے، دیوار کے ساتھ لگانا ہے۔سیاست دانوں اور شہری حقوق کے کارکنوں کا استدلال ہے کہ اگر یہ پالیسی اتنی ہی فائدہ مند ہے تو مودی حکومت اسے پہلے بھارت میں لاگو کیوں نہیں کرتی تاکہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقوں اور کمیونٹیز کو فائدہ پہنچے؟ان کا کہناہے کہ قابض حکومت کا اصل ہدف مسلم اکثریتی جمو ں وکشمیر میں پسماندہ طبقات کے مخصوص کوٹے میں اضافے کی آڑ میں مسلمانوں کے کوٹے کو کم کرنا ہے۔