کراچی(رپورٹ : مرزا افتخار بیگ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اسپیشل ایونٹس کمیٹی کے زیر اہتمام فہمینہ ارشد کے کالموں کا مجموعہ ”سیان فہمیاں“ کی تقریب رونمائی حسینہ معین ہال میں کی گئی جس کی صدارت محمود شام نے کی جبکہ مہتاب اکبر راشدی، عمرا نہ مقصود، زیب اذکار حسین، خرم سہیل، حسان بن رضوان اور حرا شبیر نے اظہار خیال کیا۔ تقریب میں نظامت کے فرائض آصف علی آصف نے انجام دیے، محمود شام نے صدارتی خطبے میں کہاکہ روایات کا خون بہہ رہا ہے، بگڑے معاملات کو درست کرنے کے لیے انقلابی قدم اٹھانے پڑتے ہیں، فہمینہ نے سوچ کی پستی کا ذکر بہت خوبی سے بیان کیا ہے، انہوں نے کہاکہ لوگوں نے معاشرے میں پھیلی برائی پر آنکھیں بند کرلی ہیں، فہمینہ نے اپنی کتاب میں قلم کی طاقت کو استعمال کیا ہے، مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ اس کتاب میں باتیں ساری پرانی ہیں لیکن اسلوب نیا ہے، زیب اذکار حسین نے کہا کہ فہمینہ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ عام سی باتوں کے اند ر چھپے ہوئے نفسیاتی رویوں کو بہت سادہ سی زبان میں لکھتی ہے، عمرانہ مقصود نے کہا کہ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں فہمینہ نے نہایت آسان اور سمجھ آنے والی زبان اردو میں اظہار کیا ہے، آج کی نوجوان نسل اس لیے اردو نہیں پڑھتی کیونکہ کتابیں لکھنے والے اتنی ثقیل اردو لکھتے ہیں کہ پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اقبال لطیف نے کہاکہ آرٹس کونسل ادب وفنون کا بہترین ادارہ ہے، کتاب کی رونمائی مجھے نو بیاہتادلہن کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ فہمینہ نے اپنی تحریروں میں معاشرے کی سفاکی کو بہت آسان الفاظوں میں بیان کیا ہے، خرم سہیل نے کہا کہ کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ ہم سے خود کلامی کر رہی ہو جن چیزوں کے بارے میں عموماً بولنا مشکل ہوتا ہے فہمینہ نے ان واقعات کو نہایت تلخ انداز سے قلم بند کیا ہے۔ حرا شبیر نے کہا کہ اس کتاب کا صرف عنوان ہی انوکھا اور منفرد نہیں بلکہ مسودہ بھی دلفریب ہے۔ حسان بن رضوان نے کہا کہ دوکروڑ ستر لاکھ بچے اسکول نہیں جا رہے اور جو بچے اسکول جاتے ہیں ان میں سے ستر فیصد بچے بین الاقوامی معیار سے نیچے ہیں، بچوں کے تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے فہمینہ نے بچوں کے ادب پر بھی کام کیا۔ آخر میں فہمینہ ارشد نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی سمیت تمام مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشرا دن بہ دن اخلاقی زوال کا شکار ہوتا جارہا ہے، معاشرے میں مردوں کی تر بیت کا رحجان بہت کم ہے، جتنا زور عورتوں کی تربیت پر دیا جا تا ہے اگر اس کا ایک فیصد بھی مردوں کی تربیت کی جاتی تو آج معاشرہ کچھ اور ہوتا۔