والد گرامی کو بچھڑے دو سال بیت گئے…ابھی بھی یقین نہیں آتا کہ وہ "دنیا”سے روٹھ گئے ہیں……وہ اب بھی اتنے ہی مہربان ہیں جتنے زندگی میں تھے….وہ اب بھی خواب میں اسی طرح ملتے ہیں جیسے زندگی میں ملتے تھے….وہ خواب میں آتے اور دعائیں دے جاتے ہیں….ایک روز پہلے صبح نو دس بجے وہ خواب میں ملے ۔۔۔۔۔سر پر ہاتھ کر رکھ کر حال پوچھا اور دعا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو برس قبل ان کے فراق میں جو جذبات تھے وہی جذبات اب ہیں……دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں …!!!جو دو سال قبل لکھا وہی پیش خدمت ہے:
24دسمبر 2021 ہمارے لیے”یوم الحزن "بن گیا….. ابا حضور نوے سال سے زائد عمر پا کر اللہ کے حضور پیش ہو گئے…..جمعتہ المبارک کی صبح سویرے اپنی شریک حیات اورہماری والدہ محترمہ کے ہاتھوں چائے کی پیالی پی اور چپ چاپ اپنے آخرت کے سفر پر چل دیے…..
زندگی بھی "عجب کہانی” ہے کہاں "طلوع” اور کہاں "غروب” ہوتی ہے…..والد گرامی نے پٹھان کوٹ کے گائوں "جیانی” میں آنکھ کھولی….قیام پاکستان پر خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے پسرور کے چھوٹے سے گائوں "کوٹلی جوشن چاہ جٹاں” میں اقامت پذیر ہوئے اورشکرگڑھ کے چھوٹے سے گائوں” تاج پورہ” میں مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے……..
اللہ والوں سے انتہائی عقیدت رکھنے والے عزت مآب بزرگوارم سلامت اللہ ولد مہردین صوفی مزاج آدمی تھے…….نارووال کی روحانی درگاہ علی پور سیداں میں آرام فرما ولی کامل سید جماعت علی شاہ صاحب سے نسبت تھی…..یہ” مکتب کی کرامت” تھی کہ آخری سانس تک "راستہ "نہ بھولے….. سیدھے سادے،سچے اور ایمان دار آدمی تھے…..صوم و صلوہ کے پابند….کبھی مئی جون میں بھی روزہ نہ چھوڑا……درود شریف کے دلدادہ تھے…..درود تاج تو صبح کا لازمی وظیفہ تھا…….آواز میں ترنم تھا…..اذان دیتے تو قرب و جوار کے دیہات بھی گونج اٹھتے…..پورا گائوں انہیں "چاچا مولوی” کہتا تھا…….پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق تھا…..اصحاب رسول اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت تھی…….جناب صدیق و عمر ،عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے گن گاتے…..سیدہ بی بی فاطمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے قصیدے پڑھتے……عشق کے باب میں سیدنا بلال حبشی اور اویس قرنی رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کرتے تو اشکبار ہو جاتے….
ابا جی سفید پوش مگر انتہائی کم وسائل میں بھی بڑے مہمان نواز تھے…….مسجد میں نماز فجر کے بعد گھر آتے تو کبھی چاچا عبدل تو کبھی چاچا ناظر ساتھ ہوتے…..انہیں "حقہ اور چائے” پلاتے…… صبح ناشتے کے لیے بیٹھتے تو سب سے پہلے دروازے پر آئے کتوں کو روٹی ڈالنے کا کہتے…..دل کے غنی تھے…..کچھ سال پہلے میرے کہنے پر پسرور والے گائوں کے گھر کی جگہ مسجد کو دے دی……
میرے پہلے استاد بھی ابا جی ہیں….وہ قلم دوات کا زمانہ تھا…..انہوں نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا…..میں نے تختی پر الف ب لکھنی بھی ان سے سیکھی……میرے استاد میری خوشخطی پر عش عش کر اٹھتے….اس "قلمکاری” میں ان کا 100فیصد ہاتھ تھا……انہوں نے پہلی سے آٹھویں تک میرا خوب خوب خیال رکھا…..گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ سے گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور تک وہ ساتھ ساتھ رہے…..ان آٹھ سالوں میں پہلی پوزیشن لی…..پانچویں اور آٹھویں میں سکالرشپ لیا…..وہ میرے اساتذہ کے بھی دوست تھے….ان کا بے پناہ احترام کرتے….ہر سال نتیجہ آنے پر ان کی خدمت میں مٹھائی کا ڈبہ ضرور پیش کرتے……یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امی ابا نے پیسے جمع کرکے مجھے چوتھی جماعت میں ہی سائیکل لے دی…..یہ گائوں میں کسی بندے کے پاس پہلی سائیکل تھی….یہ تو بچپن کی باتیں ہیں….شادی کے بعد بھی اللہ نے مجھے بیٹی بیٹا دیا تو ان کے عقیقے کے لئے گائے عنایت فرمائی کہ بچوں کا صدقہ دو…..
با ذوق آدمی تھے…..پنجابی کے بہت زیادہ اشعار یاد تھے…..ریڈیو کے بڑے شوقین تھے…..صبح سویرے دینی پروگرام اور پھر خبریں باقاعدگی سے سنتے….تلقین شاہ ،مسٹر جیدی اور نظام دین بھی پسند تھے….جموں کشمیر ریڈیو کو بھی دھیان سے سنتے……پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کی بڑی فکر ہوتی…..ہمیشہ پوچھتے کیا حالات چل رہے ہیں…….کرتار پور راہداری کھلی تو کہنے لگے یہاں سے تو ہمارا پٹھان کوٹ بڑا نزدیک ہے…..پھر اپنے آبائی گائوں سے ہجرت کی پوری کہانی سنا ڈالی کہ ہمارے پاس کتنی زمین تھی اور کتنے مویشی تھے؟؟؟؟لوگ کیسے لٹے اور کیسے شہید ہوئے؟؟؟؟وریو فیملی کے چودھری اختر اور چودھری عبدالستار سے تعلق تھا کہ اسی خاندان کے ساتھ پاکستان آئے تھے…..دلیر،دبنگ اور بارعب آدمی تھے……کسی طرم خان کی پروا نہ کرتے….جسے سچ سمجھتے منہ پر کہہ دیتے…..اپنے ماما جان اور سسر دین محمد کے بڑے مداح تھے کہ وہ بھی وقت کے پردھان تھے……..ابا جی کھلے دل کے آدمی تھے….کبھی نہیں کہا کہ میرے مسلک پر چلو…. علمائے کرام کی قدر کرتے…..تبلیغی جماعت کو بڑی محبت سے کھانا کھلاتے کہ یہ مسافر لوگ ہیں… ابے سے کبھی کبھی "مناظرہ "بھی ہو جاتا تو بڑے کانفیڈنس سے کہتے تجھے آتا کیا ہے یار؟
روحانیت پسند تھے….مجھے کہتے پتر ایک پیر ضرور ہونا چاہئیے….میں نے بتایا کہ میں نے مکہ مکرمہ کے بڑے بزرگ مولانا عبدالحفیظ مکی کی بیعت کی ہے تو بہت خوش ہوئے اور کہا بہت اچھا کیا….یہ ہوئی نا بندے کے پتروں والی بات…..!!!
عقیدہ ختم نبوت کا اتنا فہم رکھتے تھے کہ” نقب زن "بھی انگشست بدنداں رہ گئے …..بیس پچیس گھروں پر مشتمل پسرور والے گائوں میں ایک قادیانی مربی تھا…..وہ والد صاحب سمیت سب کے پاس بیٹھتا تھا کہ شاید دال گل جائے…..اباجی اسے چائے اور حقہ پلاتے لیکن جب” ممنوع گروہ” کے من گھڑت”دھرم” کی بات آتی تو اسے کہتے کہ” مرزا کی خرافات” چھوڑ دیں…..کیوں اپنی آخرت خراب کر رہے ہو…..وہ برا سا منہ لیکر چل دیتا…..ایک دفعہ مجھے کہنے لگے سنا ہے اس کی انگریزی اچھی ہے….اس سے پڑھ لیا کریں….میں نے ایک دن نا چاہتے ہوئے پڑھنے کےبعد بتایا ابا یہ فرسودہ سا بندہ ہے….. اسے کچھ بھی نہیں آتاجاتا…..اس سے بہتر تو مجھے گرامر آتی ہے…….قہقہہ لگایا اور کہا چلیں چھوڑیں…..
2003میں میرے نکاح پر والد صاحب اور رکن پنجاب اسمبلی مولانا غیاث الدین میں بڑا دلچسپ مکالمہ ہوا….مولانا کو نا جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے” اپنے بریلوی مزاج "کیخلاف سیدھے سیدھے ایجاب و قبول کے کلمات دہرائے….خطبہ دیا اور دعا کرادی …..ابا جی بولے مولوی صاحب آپ نے کلمے کیوں نہیں پڑھائے …..؟؟؟؟؟مولانا نے برجستہ کہا بزرگو آپ کے بیٹے نے کلمے پہلے ہی پڑھ لیے ہوئے ہیں….زور دار قہقہہ لگا اور مجلس نکاح کشت زعفران بن گئی…..
سچی بات ہے کہ ابا جی ہمارےلیے مبلغ تھے…..جھوٹ سے منع،رزق حلال اور صدقہ دینے کی تلقین کرتے….پوچھتے اخبار والے لوگوں کی کمائی تو حلال ہوتی ہے نا؟میں مسکراتا اور کہتا سو فیصد تو اللہ کا شکر ادا کرتے اور دعا کرتے اللہ آپ کو رزق حلال عطا فرمائے….ہمیشہ نصیحت کرتے اللہ کریم سے ہمیشہ فضل مانگا کریں….
میرے بچوں سے بہت پیار تھا…..بڑے بیٹے مہد کو پیار سے عبدالعزیز،عروبہ کو روبی،حسین کو امیر حسین اور ہادیہ کو سکینہ کہتے…..سب کو گود میں لیکر منہ ماتھا چومتے…..ہادیہ عمرہ کرکے آئی تو اسے گلے لگا کر رودیے کہ ہماری یہ خوش قسمت بیٹی مدینہ دیکھ کر آئی ہے…کبھی موڈ بنتا تو "گتھلی” نکالتے اور کہتے پیسے نکالو اور سب کو اتنے اتنے دے دو…….
اپنے بیگانے سب کے خیر خواہ تھے……زندگی بھر کسی کا برا چاہا نہ کسی کو برا بھلا کہا….ہر ایک کو دعا ہی دی….رشتہ داروں میں ایک ایک کا حال پوچھتے…..ایک ایک کو سلام بھجواتے…….ایک اور عادت بڑی عجیب تھی کہ جب اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کو ہاتھ اٹھاتے تو خاندان کے سب مرحومین کے لیے دعا کرتے…. شاید یہ دوسروں کو دعائیں دینے کا صلہ تھا کہ انہیں "موت سے معانقہ "بھی گراں نہ گذرا….بیٹھے بیٹھے گردن ایک طرف جھکائی اور ہمیشہ کے لیے سو گئے… چھوٹے سے گائوں میں بڑا جنازہ حیران کن تھا…پسرور والا تو پورا گائوں ہی "اپنے چاچا مولوی” کو الوداع کہنے کے لیے امڈ آیا…
آخری عمر میں بینائی جواب دے تھی گئی مگر بلڈ پریشر اور شوگر سمیت کوئی عارضہ نہ تھا…….وفات سے دس روز پہلے بچوں کے ساتھ گائوں گیا تو ہشاش بشاش تھے…..ہمارا سن کر بہت خوش ہوئے….خوب باتیں کیں…..واپس آنے لگے تو میں نے کہا اپنے پوتے سے قرآن سن لیں…..مہد کی تلاوت سن کر آنسو چھلک پڑے…….میں نے اجازت چاہی تو سر پر پیار دیتے ہوئے کہا اللہ بھلا کرے…..میں نے آمین کہتے ہوئے کہا ایک بار پھر دعا فرمائیں تو پھر کہا اللہ بھلا کرے….ہمیشہ دعائوں میں رخصت کرنے والے مہربان باپ کی میرے لیے یہ آخری دعا تھی…..ابا جی کتنے بھلے آدمی تھے…..جاتے جاتے کتنی بھلی دعا دے گئے…… اب یہی دعا میرا اثاثہ ہے…!!!! دعا سے یاد آیا کبھی کبھی کہتے یار اپنے "مدینے والے بزرگ” سے دعا کا کہیں…….صحافی کالونی لاہور کی جامع مسجد حمیدہ میں "فقیر مدینہ”الشیخ الدکتور احمد علی سراج نے بڑے مجمعے میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو میری آنکھیں چھلک پڑیں کہ اللہ کتنا مہربان ہے کہ "مدینے والے بزرگ "کو ابا جی کے لیے سجی "دعائیہ تقریب” میں "الوداعی دعا” کے لیے بنفس نفیس ہی بھیج دیا…….ابا جی آپ کے لیے ڈھیروں دعائیں ہورہی ہیں….آپ یہاں بھی سلامت ٹھہرے، وہاں بھی سلامت رہیں…..!!!
(نوٹ:اس سال 24دسمبر کو لاہور پریس کلب کے الیکشن تھے۔۔۔والد گرامی کی برسی پر نہ لکھ سکا۔۔۔۔آج کل کرتے پانچ مہینے بیت گئے۔۔۔۔خواب میں ملے تو پھر زخم تازہ ہو گئے۔۔۔۔۔دوستوں سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے)