کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے بغیر نیلامی،بغیر اطلاع عام و مشتہر کیئے اور سب سے بڑھ کر بورڈ سے بغیر کسی مشاورت و منظوری کے مینجنگ ڈائریکٹر صلاح الدین نے ازخود سابق چیف سیکریٹری سندھ فضل الرحمن کے داماد بلال عرف بنٹی کی کمپنی سفاری ٹرانسپورٹ و نیاز خان کو شیر پاؤ ہائیڈرنٹ کے ٹھیکے میں ایک سال توسیع کردی ہے۔اس سلسلے میں ہائیڈرنٹ سیل کے الہی بخش بھٹونے اس بات کی تصدیق کرتے کہا ہے کہ قانون کے مطابق مینیجنگ ڈائریکٹر کو اس کا اختیار ہے وہ ٹھیکے میں اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت توسیع کر سکتے ہیں،اگلے سال تمام ہائیڈرنٹس کا نیلام عام کیا جائے گا۔شیرپاؤ ہائیڈرنٹ ضلع جنوبی سے ڈیفنس، کلفٹن، صدر، گارڈن اور کھاردار کے علاقوں میں ٹینکرز سروس کے ذریعے پانی فراہمی کیا جارہا ہے۔ ہائیڈرنٹ اسٹیل ملز کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ شیرپاؤ ہائیڈرنٹ پر گذشتہ 7 سال سے غیر اعلانیہ طور پر بلال عرف بنٹی کا قبضہ ہے جو کئی مواقع پر ہائیڈرنٹ کی آمدنی سے بھی غیر قانونی لوٹ مار کررہے ہیں۔ اس ضمن میں بلال بنٹی نے ٹھیکہ حاصل کرنے کے بعد سینٹرر شہادت اعوان کے بھائی سرمد اعوان کی کمپنی ایچ ٹو(صفورا ہائیڈرنٹ) کو فروخت کردیا تھا پھر ان کے خاندان نے پانی کے کاروبار کو اچانک چھوڑنے کا اعلان کرکے شیر پاؤ (70کروڑ) اور صفورا(80کروڑروپے)کو قاضی احمد (نوابشاہ)کے ٹرانسپورٹ کے کاروباری کمپنی کے جاوید راؤ کو ہائیڈرنٹ کا کاروبار فروخت کردیا ہے۔ یہ صدر آصف زردای کے دبئی میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار کے نگران ہیں۔ ہائیڈرنٹس کو نیلامی کے بجائے کسی کو ٹھیکے پر دینے سے کراچی کے ہائیڈرنٹس کے کاروباری حلقوں میں شدید ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اس کے ایک نمائندہ جمشید خان کا کہنا ہے کہ کاروبار مکمل طور پر منتقل ہوچکا ہے تاہم کمپنی کا نام اکاونٹ میں قانونی پیچیدگی کے باعث تبدیل نہیں کیا گیا۔ہائیڈرنٹ سیل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنی کے فروخت سے لاعملی ظاہر کردی گئی ہے لیکن اب بھی شیر پاؤ ہائیڈرنٹ نیاز خان اور بلال بنٹی کی سفاری ٹرانسپورت کمپنی کے نام پر ہے۔ بلنگ بھی اسی نام سے کی جاتی ہے۔ نیاز خان اب بھی رابطہ میں ہے،انہوں نے کمپنی تبدیل کرنے کے بارے میں تصدیق بھی نہیں کی ہے۔ایک سال توسیع کا معاہد ہ بھی نیاز خان نے وصول کیا ہے۔دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ جاوید راؤ آئندہ نیلامی میں حصہ لیں گے۔ آج بھی ہائیڈرنٹ سیل کے ریکارڈ میں کمپنی کا نام بلال بنٹی کے نام سے کاروبار چل رہا ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کاروبار تبدیل ہونے کے باوجود بلال بنٹی کا تعلق براہ راست نہیں ہے بلکہ بلا واسطہ برقرار ہے۔ذرائع کے مطابق کراچی سسٹم کے تحت ہائیڈرنٹس کے اصل نگران سابق وزیراعلی و سابق چیف سیکرٹری سندھ فضل الرحمن ہیں اور وہی اسے چلارہے تھے ان کے داماد بلال عرف بنٹی قانونی و غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی نگرانی کئی سالوں سے کرتے آ رہے ہیں اور انہوں نے ادارے میں اپنی ایک ریاست قائم کررکھا ہے۔یاد رہے کہ کراچی سسٹم کو سیاسی شخیصت ذاتی طور پر خود دیکھتی ہیں۔بلال بنٹی کی نگرانی میں واٹر کارپوریشن میں کراچی سسٹم (بدعنوانی، رشوت، کمیشن،کک بیک) کے تحت ہائیڈرنٹس کو چلایا جارہا ہے اور اس سے ہونے والی غیر قانونی آمدنی کو قومی احتساب بیورو، ایف آئی اے سمیت دیگر تحقیقاتی اداروں و اینٹی کرپشن اور صوبائی حکومت کے وزراء و اراکین اسمبلی سمیت دیگر کو ان کا حصہ بقدر جثہ بڑے منظم انداز سے تقسیم کررہے ہیں جس کی وجہ سے تمام تحقیقاتی اداروں نے ہائیڈرنٹس سے حصہ وصول کرکے اپنی آنکھیں،کان، زبان سب بند کر کے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے،جبکہ معاہدے کے تحت ہائیڈرنٹ سے 45 فیصد گورنمنٹ پرائس سسٹم (GPS)کے تحت پانی فراہم کرنا، اور 55 فیصد تجارتی بنیاد پر پانی فروخت کرنے کی اجازت ہے۔شیر پاؤ ہائیڈرنٹ کو ضلع جنوبی کے شہری علاقوں میں پانی فراہم کرنے کا اختیار ہے۔چھ ہائیڈرنٹس کو نیپا چورنگی ضلع شرقی کو غلام نبی داد کی کمپنی جی این بردارز،سخی حسن ضلع وسطی شیر محمد کی کمپنی قاسم رضا اینڈ کمپنی، کرش پلانٹ منگھوپیر ضلع غربی کو حسن نبی کی کمپنی محمد علی واٹر ٹینکر، صفورا چورنگی ضلع ملیر سرمت اعوان کی کمپنی ایچ ٹو او، لانڈھی ضلع کورنگی ایس ایم طارق کی کمپنی ایس اے طارق،شیر پاؤ ضلع جنوبی نیاز خان اور بلال بنٹی کی سفاری ٹرانسپورٹ اینڈ کمپنی،ہائیڈرٹنس کے منافع بخش کاروبار میں سیاسی،سرکاری افسران و دیگر بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔ہائیڈرنٹس کے ٹھیکیدار اتنے بااثر ہیں کہ اس کاروبار میں حصہ لینے والوں کی شفافیت،نگرانی اور سخت قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ موجودہ سیاسی نظام میں ناممکن نظر آتا ہے۔ پانی کے کاروبار میں سب سے اہم پانی چوری روکنے کیلیئے پہلے دفعہ فیصلہ ہوا ہے کہ ڈیجیٹل میٹر کے ذریعے پہلی بار ایم ڈی سیکریٹریٹ سے نگرانی کی جائے گی اس سلسلے میں جدید کیمروں کا نظام وضح کیا گیا ہے کراچی میں سات سرکاری ہائیڈرنٹس کے علاوہ ایک این ایل سی کا ہائیڈرنٹ موجود ہے جو کمرشل بنیاد پر چل رہا ہے یہ نیلامی میں شامل نہیں ہوتا لیکن ان کے آگے کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے ایک معاہدے کے تحت انہیں دو سال کے لئے یہ ہائیڈرنٹ دے رکھا ہے لیکن خود بخود اس معاہدے میں ہر دفعہ بلا چوں و چرا توسیع ہوتی رہتی ہے۔