کراچی (آغاخالد)سعید غنی کا بلدیات میں یہ راج دوسری مرتبہ قائم ہواہے پچھلی مرتبہ نتائج متاثر کن نہ تھے مگر اس بار بلاول کے اعتماد پر پورا اترنے کی سعید غنی کی گرم جوش کوششیں رنگ لارہی ہیں اور سعید غنی کی بدلی بدلی سی سرکار کو تکتے جیالے بھی حیران ہیں بلدیاتی افسر شاہی سعید غنی کے نئے روپ کو ہضم نہیں کرپارہی اس لئے سرگوشیوں میں کہتے ہیں "کمبخت میں عثمان غنی کی روح حلول کرگئی ہے” اور یہ درست بھی ہے کچھ تو بلاول بھٹو کی مثبت سوچ کا کمال ہے جنہوں نے اس مرتبہ انتخابات میں پیش آمدہ حالات اور عوام کے سسٹم سے نفرت پر سبق لیا اور کابینہ کی دوبارہ تشکیل کے وقت دوٹوک انداز میں ایک بات واضع کردی کہ اب وہ سندھ میں سسٹم کو برداشت نہیں کریں گے اور ہر وزیر کو ٹاسک دیاکہ اسے سابقہ غلطیوں کی تلافی کرنا ہوگی تاکہ عوام کاغصہ کم کیا جاسکے یوں بھی سعید غنی کے متعلق ان کے قریبی رفقا کاکہناہے کہ وہ مثبت سوچ کے شخص ہیں اور گزشتہ دور حکومت میں بلدیات کی وزارت ملنے پر ان کی بدنامی کے ذمہ دار ان کے بھائی اور سسٹم کی مجبوری تھی یوں بھی سعید غنی کی رگوں میں 90 کی دہائی کے مزدور رہنمائوں کے "مرد قلندر” کہلائے جانے والے عثمان غنی کا خون ہے جو مسلم کمرشل بینک کے معروف مزدور رہنما تھے مگر ان کے پائوں میں اکثر پھٹی ہوئی چپل اور کبھی اس پر تازہ کی ہوئی پالش نہیں دیکھی جس پر ریلوے کے عظیم مزدور لیڈر منظور رضی کہتے ہیں ایسا اصول پسند اور جرئت مند لیڈر مینے نہیں دیکھا جبکہ ان کے ہم عصر پی پی ہی کے عزیز میمن، عمر میمن، حبیب جنیدی اور دیگر کیا سے کیا ہوگئے ان کا یہ بھی ریکارڈ ہے کہ ایم سی بی کی نجکاری محترمہ بے نظیر کے دور میں ہوئی تو وہ اس کے خلاف جم کر کھڑے رہے اور جیل بھی کاٹی مگر اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ رہے ایک ایسے بہادر ایمان کے محافظ باپ کی اولاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںمگریہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پپلز پارٹی کے جیالا مزاج کی وجہ سے اس میں رہ کر بدعنوانی یاقانون سے ماورا کاموں کے سامنے بند باندھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے پھر بھی شاباش ہے عثمان کے اس بیٹے کو جس نے اس مرتبہ بلدیاتی چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے افسر شاہی کو ہدایت کی کہ وہ ان کے بھائیوں یا پی ایس رحمت شیخ کے کسی غیر قانونی حکم کو نہ مانیں اوراپنے اس حکم پر عمل در آمد بھی کروارہے ہیں پی پی میں کوئی وزیر سفیر کلی اختیارات کا مالک نہیں ہوتا اس پارٹی میں طاقت کے 3 مراکز ہیں صدر مملکت،ادی صاحبہ اور بلاول اور تینوں میں سے کسی ایک کی ناراضگی کی صورت میں وزارت سے یا کم از کم پارٹی میں باعزت مقام سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں اس لیے وہ رحمت اللہ شیخ کو ناپسند کرتے ہوے بھی ہٹا نہیں پارہے مگر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوے ان کے احکامات کو محدود اور سخت زیر نگرانی رکھ کر کھل کھیلنے سے روک رکھاہے تاہم وہ اپنی سادہ طبیعت کے باعث ڈی جی سندھ بلڈنگ کے انتخاب میں دھوکہ کھاگئے انہیں بتایا گیا تھا کہ رشید سولنگی ایک ایماندار افسر ہے غنی کو دھوکہ دینے والوں کے اپنے کچھ عزائم ہوں گے اس لیے غنی نے سولنگی کی تقرری کرتے ہوے انہیں کراچی کو عمومااور ضلع وسطی اور شرقی کو خصوصا "پورشن” مافیا سے پاک کرنے کا ٹاسک دیا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ آتے ہی محکمہ میں سب سے زیادہ بدعنوان افسران اور ماتحتوں کو سخت سزائیں دیتے ان کے دور دراز تبادلے کرکے ان میں حقیقی احتساب کاخوف پیدا کرتے معطلی اور اچھی شہرت کے حامل افسران کی تحقیقاتی کمیٹیاں بناکر تفتیش کے بعد بدعنوانو کی برطرفی کرتے مگر ہوا اس کے برعکس انہوں نے ایس بی سی اے کی ساری بدعنواں مافیاکو اپنے گرد جمع کرلیا اور انہیں ہفتہ وار بھتہ کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر بھتہ جمع کروانے کے عوض اپنے علاقوں میں قانون شکنی کی کھلی چھوٹ دیدی سب سے پہلے انہوں نے ڈائرکٹر ایڈمن مشتاق سومرو پر ہاتھ رکھا جو آج کل محکمہ میں پورشن مافیاکے سب سے بڑے سرپرست ہیں اور سابقہ ڈی جی سے ضلع شرقی کا 6 کروڑ ماہانہ کے عوض ٹھیکہ لے کر اس میں وہ اندھیر مچائی کہ الامان والحفیظ کبھی ضلع وسطی پورشن مافیا کے حوالے سے بدنام تھا مگر اس کا ماہانہ ریٹ 3 کروڑ سے اوپر نہیں گیا تھاجبکہ مشتاق سومرو کی ڈیڑھ ٹانگ کے ہنر نے اسے بے ثمر بناتے ہوے شرقی کو کمائی کاسب سے اہم مرکز بنادیاہے سومرو نے جو اپنے پاس اکثر ڈائرکٹر ایڈمن کاچارج بھی رکھتےہیں ایک اور بدنام زمانہ افسر ڈپٹی ڈائرکٹر شہزاد کھوکر کو دونوں منافع بخش اضلاع میں پورشن کا چارج دلواکر دونوں ہاتھوں سے مال سمیٹا ہے رشید سولنگی کی تقرری اور غنی کی وزارت کے بعد وہ مزے تو نہ رہے مگر باز وہ پھر بھی نہیں آئے محکمہ کے اندرونی ذرائع سے معلوم ہواہے کہ رشید سولنگی ان بدکردار افسران کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے محکمہ کے ایڈیشنل ڈائرکٹر سلامت علی اور دیگر مختلف ذرائع سے ان کے زیر تعمیر یامکمل کردہ پورشنز کی تفصلات حاصل کرکے انہیں اپنے دفتر میں اس طرح طلب کرتاہے کہ 18 گریڈ کا کھوکھر اس کے سامنے کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاکر بیٹھتاہے اور ڈی جی اپنی کرسی چھوڑکر اس کے برابر آبیٹھتاہے اور پھر دو سہیلیوں کی طرح ان میں کانا پھوسی ہوتی رہتی ہے جب تک کھوکھر اپنے جرائم کا کروڑوں میں جرمانہ بھرتا رہا وہ ڈی جی کا لاڈلہ تھا جب اس نے انکار کیا تو بدعنوان مگر میسنے ڈی جی نے اسکے غیرقانونی پورشنز کی توڑ پھوڑ شروع کروادی شہزاد کھوکھر کاکہناہے کہ سعید غنی ان سے بلاکر حلفیہ بیان لیں تو وہ ثابت کریں گے کہ سولنگی کو وہ اب تک 2 کروڑ سے زائد دے چکے ہیں مگر ہر روز کے ان کے نئے مطالبات سے وہ بیزار آچکے ہیں جبکہ محکمہ جاتی رپورٹس کے مطابق شہزاد کھوکھر نے04 ماہ کے دوران صرف لیاقت آباد اور ناظم آباد میں 182 پورشنز بنوائے ہیں 120 گز کے ایک پورشن کے 5 سے 8 لاکھ لیے جاتے ہیں اگر اس میں سے ادھر ادھر دے دلاکر 3 لاکھ فی کس بھی بچالیا تو۔۔۔۔کروڑوں بن گئے اب یہ تو صرف ایک ٹائون کی رقم ہے جبکہ وہ 2 کمائو پوت اضلاع یعنی شرقی (ایسٹ) اور وسطی (سینٹرل) کا ڈیڑھ سال سے بے تاج بادشاہ بنا ہواہے قبل ازیں یہ فیصل میمن سسٹم کابھی اہم کارندہ رہاہے اور ان 4 سالوں میں بھی اس نے کروڑوں کمائے تھے جبکہ اس کی ہر ڈیل کا ایک لاکھ مشتاق سومرو کو ملتاہے یہ بھی یاد رہے کہ رشید سولنگی کی دھمکی میں نہ آنے پر گزشتہ دو روز سے شہزاد کھوکھر کے فردوس کالونی میں 1000 گز کے پورشن کی انہدامی کاروائی جاری ہے پہلے دن جب انہدامی ٹیم پہنچی تو کھوکھر جو اپنے 2 کروڑ میں سے بقایا لینے بیٹھاتھا فرار ہوگیا اور انہدامی ٹیم نے مصنوعی کاروائی کرکے 30 لاکھ لیے اور پھوٹ لیے مگر ڈی جی جو غصے میں تلملارہے تھے کو بروقت اطلاع مل گئی انہوں نے انہدامی ٹیم کوطلب کرکے کاروائی کی دھمکی دے کر 30 لاکھ بھی بٹور لیے اور دوسرے روز پھر ٹیم بھیج دی یوں گزشتہ 2 روز سے ایک پلاٹ پر توڑ پھوڑ ہورہی ہے دراصل ڈی جی اور شہزادکھوکھر میں آنکھ مچولی کھیلی جارہی ہے دونون ایک دوسرے کے دشمن ہیں نہ دوست بس مفادات کی جنگ جاری ہے (قسط نمبر 2 جلد)