اپریل کی بارشوں سے دریائی نظام میں تقریباً 10 ملیئن ایکڑ فٹ تک حجم کا پانی بنا ہے جس میں سے 4 ملیئن ایکڑ فٹ تو صرف دریائے کابل میں بنا ہے۔ دریائے کابل میں بننے والا پانی فصلوں کو لگا ہے جب کہ شمالی علاقوں اور کشمیر سے بننے والا پانی تربیلا اور منگلا ڈیم میں ذخیرہ ہو گیا ہے جن میں پانی ڈیڈ لیول تک پہنچا ہوا تھااور دونوں ذخیرے آخری سانسیں لے رہے تھے۔ اور “ارسا” نے ربیع کی فصل کے لئے 30 فی صد پانی کی کمی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
اپریل میں سب سے زیادہ بارشیں بلوچستان میں ہوئیں جوکہ معمول سے 4 گُنا زیادہ تھیں۔ان بارشوں نے مون سون کی یاد تازہ کردی لیکن افسوس کہ ان بارشوں کا پانی ذخیرہ بھی نہیں ہوسکا اور انہوں نے بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں بہت تباہی مچائی ہے۔ سڑکیں اور پُل ختم ہوگئے ہیں۔پنجاب میں بہت بڑے علاقے پر تیار گندم کی فصل بھی بارشوں سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ ان بارشوں میں ملک میں 144 سے زیادہ اموات ہوگئیں جس میں سب سے زیادہ (84)لوگ پختون خواہ میں فوت ہوئے جن کی وجہ آسمانی بجلی کا گرنا، لینڈ سلائیڈنگ، ندی نالوں میں سیلاب اور دریاؤں کا بپھرنا ہے۔
اس سال اپریل کا مہینہ 60 سالہ تاریخ کا تر ترین مہینہ رہا۔ پورے ملک میں جہاں اپریل کی بارشوں کی اوسط 22 ملی میٹر تک ہوتی ہے اس سال اپریل کی اوسط 50 ملی میٹر ریکارڈ ہوئی۔ اسی طرح جہاں اپریل اپنی تباہ کن گرمی کی وجہ سے مشہور تھا لیکن اس سال اوسط درجہ حرارت بھی صرف24 ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو کہ بہت خوش گوار ہے۔
اس سال مون سون میں بھی سنہ 2022 کی طرز کے شدید سیلابوں کی پیش گوئی ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی رقبہ زیرِ آب آگیا تھا اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسے سیلابوں کا دیو قرار دیا تھا۔ پاکستان میں دُنیا کی پانچویں بڑی آبادی رہتی ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے ہمارا ملک قدرتی آفات کی زد میں ہے حالانکہ ہم دنیا کے ماحول کو آلودہ کرنے والے کاموں میں کچھ حصہ نہیں ڈالتے۔