کراچی نفسیاتی اسپتال کے بانی ڈاکٹر مبین اختر کی رحلت سے پاکستان ایک بڑے محب وطن، ایک بڑے ماہر نفسیات، ایک بڑے ماہر تعلیم، پاکستان میں اردو زبان کے نفاذ کی تحریک کے روح رواں اور جماعت اسلامی کے ایک مخلص خادم اور رہنما سے محروم ہوگیا۔انتقال کے وقت ان کی عمر ۹۱ سال اور تین ماہ تھی وہ ۲ جنوری ۱۹۳۳ کو برٹش انڈیا مکے دور میں یو پی کے مشہور شہر بلند شہر میں پیدا ہوئے اور ایک سال ہی کے تھے کہ خاندان کے ساتھ لاہور میں آگئے جہاں ان کے والد ملازمت کرتے تھے۔
امریکہ میں رات کا آخری پہر تھا۔آنکھ کھلی تو فون کی اسکرین پر ایک پیغام کی جھلک نظر آئی جس میں لکھا تھا کہ کراچی نفسیاتی اسپتال کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر مبین اختر کا ابھی ابھی انتقال ہو گیا ہے۔یقین نہیں آیا تو وٹس ایپ پر جنگ لندن کے ہمارے عزیز انوراللہ حسینی نے بھی یہی خبر دی تو یقین کرنا پڑا۔جو بھی اس دنیا میں پیدا ہواہے اسے ایک مقررہ وقت اس فانی دنیا سے ہمیشہ کی زندگی کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے۔ہمارے سامنے ڈاکٹر مبین اختر سے ۱۹۷۰ سے ملاقاتوں اور تعلقات کی ساری باتیں یاد آرہی ہیں۔ اللہ تعالی ڈاکٹر مبین اختر کی دینی اور فلاحی خدمات کو قبول کرے اور اردو کے نفاذ کے لئے کی گئی جدوجہدکو کامیاب بنائے اور انہوں نے اپنے اسکولوں کے ذریعے علم کے فروغ کے جس سلسلے کو شروع کیا تھا اس کو جاری رکھے اور ان خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ان کی مغفرت کرے اور ان کے سوگواروں کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین
ڈاکٹر مبین اختر نے ۱۹۵۶ میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا، ۱۹۵۷ میں میو اسپتال میں ہاؤس جاب کیا۔۱۹۵۷ سے ۱۹۶۲ تک لاہور ہی میں پرائیویٹ پریکٹس کی۔۱۹۶۳ میں مشیگن امریکہ آئے۔ریذیڈینسی کے امتحان پاس کئے اور مشیگن کے سائیکایٹری یپ سائیلنٹی جنرل اسپتال سے ۱۹۶۶ میں ریذیڈینسی اور ۱۹۶۸ میں میزوری اسٹیٹ اسپتال سے فیلو شپ کیا جب کہ ۱۹۶۹ میں سینٹ جوزف اسپتال میں بھی نطور ماہر نفسیات کام کیا اور نفسیات میں امیریکن بورڈ کا امتحان پاس کرتے ہی اسی سال پاکستان وپس آئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ کراچی نفسیاتی اسپتال کے نام سے کراچی کا پہلا بڑا نفسیاتی اسپتال قائم کیا۔اس سے پہلے الگ سے کوئی نفسیاتی اسپتال نہیں تھا۔اس لحاظ سے ڈاکٹر مبین اختر کو کراچی میں پہلا بڑا نفسیاتی اسپتال قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اسپتال پہلے ناظم آباد کے پوش علاقے بلاک نمبر چار میں راشد منہاس نشان حیدر کے بڑے بنگلے میں قائم ہوا اور ۱۹۷۴ میں جب اس میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ جگہ کم پڑگئی تو ناظم آباد نمبر تین میں بقائی اسپتال کے پاس لب سڑک کئی منزلہ عمارت میں منتقل کر دیا۔شروع میں یہ عمارت کرائے پر لی گئی لیکن بعد میں انہوں نے اسے خرید لیا۔اب تک یہ اسپتال اسی چار یا پانچ منزلہ عمارت میں ہے۔ڈاکٹر صاحب نے نفسیاتی امراض اور ازدواجی مسائل کے حل کےلئے مشاورتی کلینکس بھی قائم کیے اور عوامی اگاہی کئے اس وقت رائج ابلاغ کے تمام ذرائع میں اختیار کئے انہوں نے اردو میں ایک ماہنامہ جریدہ بھی جاری کیا جس میں نفسیاتی امراض کی اگاہی کےلئے مضامیں اور سوالات و جوابات کا بھی سلسلہ جاری کیا۔جس سے اسپتال کو بڑی ترقی ملی اور ڈاکٹر صاحب کو اس کی مزید چار شاخیں کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی کھولنا پڑیں۔ وہ نوجوان نسل کو جنسی بے راہ روی سے بچانے اور اس کے مضر اثرات سے اگاہی کے بڑے حامی تھے اور کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے تھے جس پر انہیں شدید تنقید اور علماء کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔انہوں نے سیکس ایجوکیشن فار مسلم نامی ایک کتاب بھی لکھی جس پر بی بی سی پر پروگرام بھی ہوا۔جس میں اس کے حق اور مخالفت میں بحث کی گئی۔وہ اپنے کلینک میں میاں بیوی کے ازدواجی مسائل پر مشورے بھی دیتے تھے۔
ڈاکٹر مبین اختر کا تعلق ایک علمی اور مذہبی گھرانے سے تھا اور زمانہ طالب علمی سے ان کا تعلق اسلامی جمیعت طلبہ سے قائم ہوگیا تھا اور اس میں ایک کارکن کی حیثیت سے کالج میں کام بھی کرتے تھے۔امریکہ گئے تو وہاں بھی اپنا حلقہ احباب قائم کر لیا۔اس وقت امیکہ میں اسلامی سرکل آف نارگھ امریکہ قائم نہیں ہوئی تھی۔لیکن وہ پاکستان سے آنے والے طالب علموں کے ساتھ دین کے ساتھ جڑے رہے۔انہیں وطن سے بڑی محبت تھی اس لیے تعلیم مکمل ہوتے ہی امریکہ سے واپس آ گئے اور آتے ہی جہاں انہوں نے اپنا اسپتال قائم کیا، وہیں انہوں نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا اور اس کی تحریکی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگے۔جلد ہی ان کا نام جماعت اسلامی کے حلقوں میں معروف ہوگیا۔وہ بڑے کھلے ڈھلے مزاج کے یار باش اور دوست نواز تھے۔ہر ایک سے پڑے تپاک سے ملتے، جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے مہمان نواز بھی تھے۔جب ۱۹۷۴ کے آغاز میں ان کا اسپتال بقائی اسپتال کے ساتھ والی عمارت میں منتقل ہوگیا تو راشد منہاس والے بنگلے میں وہ تنہا رہنے لگے۔ وہ گھر بڑا وسیع تھا جہاں ان کی رہائش بھی تھی۔انہوں نے اس کے کئی کمروں کو جماعت اسلامی کے بیرون کراچی سے آنے والے مہمانوں کےلئے مخصوص کردیا۔جہان سندھ اور دوسرے علاقوں سے آنے والے مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا۔ ڈاکڑ مبین کو ان کی خدمت کرنے میں بڑا اطمینان حاصل ہوتا۔ان کو جماعت اسلامی میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ان کی ان خدمات کی وجہ سے ان کو ۱۹۷۷ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی طرف سے پاکستان قومی اتحاد کا لانڈھی سے امید وار بھی نامزد کیا گیا تھا لیکن باہیکاٹ کی وجہ سے وہ منتخب نہ ہوسکے تاہم بعد میں بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوئے۔
ڈاکٹر مبین نے تعلیم کے فروغ کےلئے بھی بڑا کام کیا اور فن ٹو لرن کے نام سے اسکول قائم کیا۔جس کی کئی شاخیں تھیں ۔اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کرنے کے بڑے حامی تھے اور آخر تک اس کےلئے کام کرتے رہے۔انہوں نے اس مقصد کے لئے کئی تنظیمیں خود بھی قائم کیں اور اس مقصد کےلئے کام کرنے والی دوسری تنظیموں کی دامے درمے اور سخنے مدد بھی کی۔
مبین اختر نے تین شادیاں کیں۔انہوں نے سوگواروں میں دو بیوائیں تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے سید صلاح الدین شباب ملی کراچی کے صدر رہ چکے ہیں اور جماعت اسلامی کی نوجونوں کی تنظم میں ان کا بڑا کردار رہاہے۔ڈاکٹر مبین نو بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ان کے ایک بھائی متین اختر چارٹرڈ اکاؤٹینٹ تھے اور اپنی کمپنی کے سربراہ تھے۔ان کا بھی برسوں پہلے انتقال ہو چکا ہے۔وہ بھی جماعت اسلامی کے رکن تھے اور جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر کام کرتے تھے۔ان کا پورا خاندان جماعت اسلامی میں ہے۔ان کے دو چھوٹے بھائی ٹینس کے بڑے کھلاڑی تھے اور اسی بنیاد پر وہ ۱۹۷۰ کے عشرے میں امریکہ آئے تھے لیکن بد قسمتی سے ان دونوں کا ٹریفک کے ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا جس کا صدمہ انہیں ہمیشہ رہا۔ایک بھائی معین اختر ہیوسٹن میں ہیں۔جب ہمارے بیٹے اعجاز عارف ڈیلس میں تھے تو ایک بار ۲۰۱۵ میں ان سے ملاقات کےلئے ہم وہاں بھی گئے تھے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مبین اختر کے کوئی اسی نوے خاندان ٹیکساس کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔اور ان سب کا اسلامی سرکل آف نارتھ امریکہ ( اکنا) سے ہے اکنا کے موجودہ سیکریٹری جنرل عدنان تفسیر بھی ان ہی کے قریبی عزیز ہیں۔
جس وقت ڈاکٹر مبین اختر ۱۹۶۹ میں امریکہ سے واپس کراچی آئے اس وقت ہم جنگ میں تھے ۱۵ مئی ۱۹۷۰ کو ہماری شادی ہوئی تو کچھ ماہ بعد پاپوش نگر کے ایک ۱۳۳ مربع گز کے گھر کے نصف پورشن میں رہتے تھے۔جس کا کرایہ ایک سو روپے تھا۔اسی گھر میں ہمارے دوستوں کا بھی آنا جا لگا رہتا تھا۔ان دوستوں میں زیادہ تر کا تعلق اسلامی جمیعت طلبہ اور جماعت اسلامی سے تھا۔ سید مظفر ہاشمی مرحوم ان میں سے ایک تھے جن کی ہم سے بڑی تکلفی تھی۔وہ بھی ہمارے گھر آتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ ہم نے دوستوں کو دعوت پر بلایا جس میں مظفر ہاشمی بھی شامل تھے۔ جگہ کی کمی اور تنگی کو انہوں نے بڑا محسوس کیا اور جب سب چلے گئے تو ہم سے کہا کہ تم کسی بڑی جگہ کیوں منتقل نہیں ہو جاتے ؟ ہم نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ بڑی جگہ کے کرائے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے یہیں بہتر ہیں۔مظفر بھائی نے کہا کہ ڈاکٹر مبین اختر تمہارے بھی دوست ہیں اور ہمارے بھی ہیں۔انہوں نے اپنا اسپتال بڑی جگہ شفٹ کر دیا ہے۔ان کا گھر بہت بڑا ہے اس کے کئی کمرے ہیں۔تم وہاں جاسکتے ہو۔ہم نے کہا کہ ہم اس کا زیادہ کرایا ادا نہیں کر سکیں گے اس لئے بات نا کرو تو بہتر ہے۔ لیکن دوسرے تیسرے دن مظفر بھائی نے اطلاع دی کہ میں نے ڈاکٹر مبین سے بات کر لی ہے وہ تیار ہی نہیں ہیں بل کہ بڑے خوش بھی ہیں کہ تم ان کے ساتھ رہنے کےلئے آرہے ہو۔کرایا تم جتنا یہاں دیتے ہو وہی وہاں بھی دیتے رہنا۔ہم نے ڈاکٹر مبین سے بات کی تو وہ بڑی خندہ پیشانی سے ملے اور خوشی کا اظہار کیا۔چنانچہ ہم ۱۹۷۴ کے جون یا جولائی کے مہینے میں اسی بنگلے کی نچلی منزل کے تین کمروں میں منتقل ہوگئے ہمارا ڈرینگ روم مشترکہ تھا۔ ہم ایک سال تک ان کے ساتھ رہے۔جیسے ایک ہی خاندان کے دو بھائی ایک ساتھ رہ رہے ہوں۔اس عرصے میں ان کو اور ان کی پہلی بیگم حبیبہ اور تین بچوں سید صلاح الدین، مہ جبین اور ماہ رخ کو قریب سے جاننے کا بڑا موقع ملا۔ہمارے اس وقت تین بچے اعجاز عارف تین سال، رابعہ دو سال اور جواد پانچ ماہ کا تھا،جن کے ساتھ ان کے تین بچے ہر وقت کھیل کود میں ساتھ رہتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ان کے سسر شرف الحق بھی یہیں آگئے جو اسی زمانے میں وفاقی حکومت کے ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ان کے ساتھ تو ہمارا بڑا گہری دوستی کا تعلق قائم ہوا۔وہ کراچی میں ایک کالج نبی باغ کالج کے بانیوں میں سے بھی تھے۔