نئی دہلی:(مانیٹرنگ ڈیسک )بھارت میںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی بی جے پی کی انتہا پسند اور فرقہ وارانہ سیاست سے محفوظ نہ رہ سکی جو مسلسل مودی کی زیر قیادت بی جے پی کے زہریلے پروپیگنڈے کی زد میں ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی کی حکمر انی کے 10سالوں میں فرقہ واریت اور نفرت کی سیاست چھائی رہی جس نے یونیورسٹیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سوسال پرانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ ایک دہائی سے بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہے جبکہ مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے متعدد تعلیمی ادارے بی جے پی کے حملوں کی زد میں رہے۔گزشتہ ہفتے مودی کی مسلم دشمن فرقہ وارانہ تقریر پر تنقید کے باوجود انہوں نے پیر کو علی گڑھ کے رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم کے لیے مہم چلاتے ہوئے اپنی مسلم دشمن بیان بازی کو دہرایا۔ایک پی ایچ ڈی اسکالر کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود مسائل کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے جبکہ بی جے پی کا سیاسی بیانیہ روزگار کے بجائے انتہا پسندی پر مرکوز ہے۔طلبا کا کہنا ہے کہ تعلیم کا بی جے پی نے اتنا استحصال کیا جتنا کسی اور پارٹی نے نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ2019کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی نے طلباء یونین کے دفتر کی دیواروں پر قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر لٹکانے پر سخت اعتراض کیا۔ نومبر 2018 میں بی جے پی کارکنوں نے الزام لگایا کہ علی گڑھ یونیورسٹی طالبان کے نظریے پر چلائی جا رہی ہے۔بی جے پی نے ایک مسلم طالب علم کی نماز جنازہ ادا کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ طلباء نے فلسطین کی حمایت میں مارچ کا اہتمام کیا تو بی جے پی کے لیڈروں نے یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا۔2019 میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا پر پولیس نے شدید تشدد کیا۔ شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا پر مقدمات درج کئے گئے اور انہیںیونیورسٹی میں تقریر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا ۔ مودی حکومت کی دوسری میعاد کے لیے حلف برداری کے موقع پر یونیورسٹی طلباء کے محض احتجاج پر بی جے پی کارکنوں نے شدید تنقید کی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلباء کے کسی بھی احتجاج کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے اور طلباء کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، لیکن جب بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلباء احتجاج کرتے ہیں تو ایسی کوئی تنقید نہیں ہوتی۔ یہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کا واضح ثبوت ہے۔