اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز (آئی ایس ایس آئی) میں ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں مقررین نےافغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک فعال نقطہ نظر اور جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی مکالمہ اور تعاون، سرحد اور پناہ گزینوں کے انتظام، مقامی لوگوں کے ساتھ شراکت داری اور مشغولیت کا فائدہ اٹھانے، رابطوں، تجارت اور راہداری راستوں کے ذریعے افغانستان کی اقتصادی صلاحیت کو بڑھانے سمیت افغان مسئلہ پر وسیع تر نقطہ نظر کو اپنانے کی تجویز پیش کی ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان کے مطابق کانفرنس کے مقررین نے تعلیم میں سرمایہ کاری کے طویل مدتی نتائج پر زور دیتے ہوئے افغانستان میں بدلتے ہوئے منظر نامے کا ایک جامع تجزیہ پیش کیا۔انہوں نے تفرقہ انگیز سیاست کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کیا جس نے افغانستان میں معیشت کو کمزور کیا اور خطے میں سماج کو پولرائز کیا ہے۔ مقررین نے افغانستان میں نسلی انتشار کا ذکر کیا جس میں نسلی غلطیوں کی وجہ سے زمینی پیچیدہ صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔انہوں نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے لئے چیلنجنگ صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔”افغانستان کے بدلتے ہوئے منظرنامے” کے موضوع پر ورکنگ سیشن کی نظامت ڈائریکٹر سینٹر فار افغانستان مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ آمنہ خان نے کی۔ سیشن کے مقررین میں افغانستان کی سابق وزیر تعلیم رنگینہ حمیدی، پروفیسر وکٹوریہ سی فونٹن، پرووسٹ اور نائب صدر برائے تعلیمی امور، امریکن یونیورسٹی آف افغانستان، قطر، پاکستان کے سابق خصوصی نمائندے برائے افغانستان سفیر محمد صادق، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹریٹجی کے پروفیسر اور وائس ڈین چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز ڈاکٹر یی ہیلن، ایسوسی ایٹ پروفیسر تہران یونیورسٹی ڈاکٹر فواد ایزدی اور صحافی ڈاکٹر بیٹی ڈیم شامل تھے۔بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے سیشن بعنوان ”انحصار سے تنوع تک: مشرق وسطیٰ کا ارتقا“ میں دیگر مقررین قائداعظم یونیورسٹی کی ڈاکٹر شبانہ فیاض، قطر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علی باقر، ڈاکٹر جہانگیر کرامی، ڈاکٹر حنان الحجیری، سفیر رفعت مسعود، ڈاکٹر معتمر امین اور ایڈم وائنسٹائن نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔مقررین نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی جنگ جیسے حالیہ واقعات امریکہاور اس کے مغربی اتحادیوں پر کم ہوتے اعتماد کو واضح کرتے ہیں اور علاقائی حرکیات کے مکمل از سر نو جائزہ کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پیچیدہ منظر نامے میں فوری طور پر سیکورٹی خدشات پر اقتصادی ترقی کو ترجیح دینے کی اہمیت کا بڑھتا ہوا اعتراف ہے، سفارت کاری اور تعاون کو ترجیح دے کر پاکستان خطے میں استحکام اور خوشحالی کے لیے فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔تیسرے ورکنگ سیشن کا عنوان ”افغانستان، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے غیر روایتی سلامتی کے خطرات“ تھا ۔ مقررین ڈاکٹر سمبل خان، سفیر حامد بیات، ڈاکٹر الیگزینڈر کورنیلوف، پروفیسر ڈاکٹر لوباچوسکی ، ڈاکٹر مونا کنول شیخ، ڈاکٹر ہو شیشینگ، ڈاکٹر فلاویس کابا ماریا اور ڈاکٹر اسلامخون غفاروف نے مختلف سیکورٹی خدشات پر اپنے خیالات کا اظہارکیا، انہوں نے روایتی خطرات کے ساتھ سائبر حملوں جیسے غیر روایتی خطرات کے بڑھنے کا ذکر کیا۔ انہوں نے شام جیسے خطوں میں غیر ریاستی عناصر کی طرف سے لاحق سکیورٹی خطرات کے بارے میں بھی بات کی اور عالمی استحکام کے لیے ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی اور پانی کے تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسے خطرات کو کم کرنے کے لیے علاقائی تعاون کی ضرورت ہے۔ آئی ایس ایس آئی کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین سفیر خالد محمود نے بھی اظہار خیال کیا۔ پروگرام ایڈوائزر ایف ای ایس پاکستان ہمایوں خان نے کہا کہ کانفرنس نے ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں پاکستان کے لیے چیلنجز اور مواقع کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایف ای ایس کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون پر آئی ایس ایس آئی کی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔