20ویں صدی کی ابتدا میں بمبئی (موجودہ ممبئی) میں ایک سیاسی جنگ برپا تھی۔ برطانوی حکومت کی خطے میں مداخلت کے خلاف یہ جنگ عدالت میں جس اُبھرتے ہوئے وکیل نے جیتی اُسے اِسی غیرمتشدد اور قانونی راہ پر چل کر چار دہائیوں میں ایک نیا ملک تراشنا تھا۔ یہ محمد علی جناح تھے، تب بیرسٹر اور اب بانیِ پاکستان۔برطانوی ہندوستان میں حکومت نے مقامی حکومتوں میں محدود سیلف گورنمنٹ متعارف کروائی تھی اور اس محدود خود حکومتی بندوبست میں بمبئی میونسپل کارپوریشن کے آدھے ارکان کو تو 12 ہزار ٹیکس دہندگان چنتے تھے مگر باقی عہدیدارحکومت نامزد کرتی تھی۔کارپوریشن کے اس ’منتخب‘ ونگ پر اعتدال پسند کانگریسی سیاست دانوں کا غلبہ تھا جن میں محمد علی جناح کے سرپرست فیروز شاہ مہتا بھی شامل تھے۔ بیشتر یورپی افسران پر مشتمل نامزد عہدیداروں نے حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور مہتا جیسے کانگریسیوں کی شکست کا بندوبست کیا۔’کاکس‘ کہلائے گئے اس گروہ میں بمبئی کے اکاؤنٹنٹ جنرل سی ایچ ہیریسن، پولیس کمشنر جیل، میونسپل کمشنر شیپرڈ اور ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ایڈیٹر لووٹ فریزر شامل تھے۔ اپنی شعلہ بیان تحریروں کے لیے مشہور، فریزر، مہتا کے خلاف کالم لکھتے رہے تھے۔ اس انتخابی جنگ میں اُن کے الفاظ میں مزید تیزی آ گئی تھی۔کاکس نے میونسپل کارپوریشن میں مہتا کو شکست دینے کے لیے 16 امیدواروں کو میدان میں اُتارا اور اُن کی جیت کو یقینی بنایا۔ لیکن اُن کے آخری امیدوار سلیمان عبد الواحد کا انتخاب چیلنج کر دیا گیا کیونکہ وہ ایک ایسی فرم کے حصہ دار تھے جو اِسی میونسپلٹی سے ٹھیکے لیتی تھی۔مہتا خود بھی بیرسٹر تھے لیکن انھوں نے اس معاملے میں جناح کو اپنا وکیل کیا۔ جناح بمبئی کی عدالت میں پیش ہوئے۔ جناح کے دلائل، قانونی حکمت اور باریکیوں نے عدالت کو قائل کر لیا اور سلیمان عبد الواحد کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ مہتا 17ویں درجے پر تھے، سو وہ خود بخود منتخب ہو گئے، اور کاکس کی تمام منصوبہ بندی خاک میں مل گئی۔
ییل یونیورسٹی میں قانونی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر روہت ڈی نے اپنے مقالے ’جناح کا قانونی کیریئر‘ میں جناح کی بال گنگا دھر تلک جیسے انگریز حکومت کے ناقدین کی نمائندگی کرنے اور بغاوت کے قوانین کے خلاف اور صحافت اور اظہار کی آزادی کے لیے اُن کی مسلسل جدوجہد کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔اُن کے مطابق مقامی حکومت کے اس مقدمے نے جناح کو قومی سطح پر مشہور کر دیا تھا۔’یہ پہلا موقع تھا جب نوآبادیاتی حکومت پر اپنی ہی عدالتوں کے سامنے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا، اور انگریزی اور مقامی پریس دونوں میں اس کارروائی کو بڑے پیمانے پر کور کیا گیا۔‘پروفیسر ڈی کا کہنا ہے کہ ’یہ مقدمہ شاید جناح کی سیاست کی ابتدائی مثال بھی تھا کہ برطانوی حکومت کی خامیوں اور تضادات کو اس کے آئینی ڈھانچے کے تناظر ہی میں بے نقاب کیا جائے۔‘یاد رہے کہ 25 دسمبر سنہ 1876 کو پیدا ہونے والے محمد علی جناح سنہ 1896 میں ابھی 20 سال کے بھی نہیں ہوئے تھے جب وہ لنکنز اِن سے پاس ہونے والے سب سے کم عمر ہندوستانی بنے۔سٹینلے وولپرٹ نے اپنی کتاب ’جناح آف پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان واپسی کے بعد ’نوجوان بیرسٹر کے ابتدائی تین سالوں کے بارے میں عملی طور پر کچھ معلوم نہیں ہے۔‘لیکن جامعہ کراچی کی سابق استاد ڈاکٹر عارفہ فرید نے ڈان اخبار کو لکھے گئے ایک خط میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جناح نے وکالت کا آغاز کراچی کی ’ہرچند رائے اینڈ کمپنی‘ سے کیا۔ یہ وہی ہرچندرائے ہیں جو دس سال یعنی سنہ1911 سے سنہ1921 تک کراچی میونسپل کارپوریشن کے سربراہ رہے تھے۔ڈاکٹر عارفہ نے یہ بات اپنے والد عبدالحامد فرید کے حوالے سے لکھی، جو خود تقسیم ہند سے پہلے پونے اور بمبئی میں اور اس کے بعد کراچی میں ایک وکیل تھے۔جناح کراچی میں مختصر قیام کے بعد بمبئی بار میں قانون کی پریکٹس کرنے چلے گئے۔اکبر ایس احمد اپنی کتاب ’جناح، پاکستان اینڈ اسلامک آئیڈنٹی‘ میں بتاتے ہیں کہ اُس وقت وہ بمبئی میں واحد مسلمان بیرسٹر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جناح کا طرزِ عمل آزادی کے کانٹے دار اظہار کی عکاسی کرتا تھا۔’بمبئی کی صوبائی حکومت کے عدالتی رُکن سر چارلس اولیونٹ جناح سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سنہ 1901 میں انھیں 1500 روپے ماہانہ پر مستقل ملازمت کی پیشکش کر دی۔ جناح نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی یہ رقم ایک دن میں کما لیں گے اور انھوں نے خود کو درست ثابت کیا۔‘پروفیسر ڈی لکھتے ہیں کہ جناح کی فصاحت اور چست دلائل نے اُن کی پریکٹس کو بڑھانے میں مدد کی۔فرینک موریس نے بعد کے سالوں میں ان کے کمرہ عدالت کے انداز کو بیان کیا ہے۔ ’کم ہی وکلا کو ایسی توجہ سے سُنا جاتا ہے جتنا انھیں۔ اپنا مقدمہ پیش کرنے میں اُن سے زیادہ ماہر کوئی نہیں۔ اگر کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ نتیجہ حاصل کرنا فنکاری ہے، تو جناح اس فن کے فنکار ہیں۔ وہ مقدمے کی تہہ میں اُترنا پسند کرتے ہیں۔ اپنے کیس کے لوازمات بیان کرنے میں، ان کا انداز کمال کا ہے۔ جب وہ بولتے ہیں تو یکسانیت کی شکار عدالت کا کمرہ میں زندگی بھر جاتی ہے۔ جونیئر وکیل اس لمبے، خوب تیار شخصیت کی ہر حرکت کی پیروی کرنے کے لیے اپنی گردنیں گھماتے ہیں، سینیئر وکیل غور سے سُنتے ہیں، جج ہمہ تن گوش ہوتا ہے۔‘
احمد کے مطابق ’جناح اکثر برطانوی اعلیٰ افسران کی مخالفت کرتے تھے۔ لیکن وہ شعوری کوشش کرتے کہ اُن کے مخالفین قانون کے کسی نکتے پر انھیں سزا نہ دے سکیں۔ مختصراً یہ کہ انھوں نے برطانوی قانون کو انگریزوں کے خلاف مہارت سے استعمال کرنا سیکھا۔۔۔ کئی بار، جناح کو انگریزوں نے ہندوستانی خود حکمرانی یا حقوق کے لیے بولنے پر بغاوت کے الزام میں قید کی دھمکیاں دیں۔‘پروفیسر ڈی کے مطابق جناح نے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں نافذ کیے گئے سخت پریس قوانین کے خلاف بہت سے مقدمات لڑے۔ ان کا سب سے نمایاں مقدمہ انگریزی زبان کے قوم پرست روزنامے ’بمبئی کرانیکل‘ کا دفاع ہے۔انہی مقدمات کی بدولت جناح کی شہرت جب ملک بھر میں پھیلی تو انھیں اسی نوعیت کے مقدمات دوسرے علاقوں سے بھی ملنے لگے۔ یہاں تک کہ سرینگر میں چھٹیاں مناتے، جناح نے وہاں کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کی درخواست پر ایک مقدمہ لڑا جسے دوسرے وکیل مشکل جانتے تھے اور ایک ہی دن کے دلائل سے اسے جیتا۔اس واقعے کا تذکرہ شیخ عبداللہ نے اپنی خودنوشت سوانح عمری ’آتشِ چنار‘ میں کیا ہے۔ اسی سے متعلق محمد یوسف صراف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’کمرہ عدالت ہر طبقے سے آئے لوگوں، وکلا، سرکاری ملازمین، دکانداروں، جو اپنی دکانیں بند کرکے آئے تھے، سے بھرا تھا اورشیخ عبداللہ بھی وہاں موجود تھے۔‘بھوپال میں ایک مقدمے کی جیت کو لوگوں کی جیت قرار دیا گیا کیوںکہ اس سے غریب طلبہ کے تعلیمی وظائف جاری رہے۔25 جنوری 1910 کو جناح نے دِلی میں ہندوستان کی ساٹھ رکنی قانون ساز کونسل میں ’بمبئی سے مسلم رکن‘ کے طور پر اپنی نشست سنبھالی۔
پروفیسر ڈی نے لکھا ہے کہ ’جناح اکثر شہری آزادیوں کے لیے بات کرتے تھے۔ سب سے زیادہ مشہور نوآبادیاتی حکومت کے بھگت سنگھ کے مقدمے کے غیر قانونی ہونے کے خلاف اسمبلی میں ان کی تقریر ہے۔ چونکہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے استغاثہ کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے غیر حاضری میں مقدمے کی سماعت کی اجازت کے لیے ایک خصوصی آرڈیننس لانے کی کوشش کی گئی۔ جناح نے اس آرڈیننس کے ذریعے قانون کی حکمرانی کو پہنچنے والے نقصان پرحکومت پر شدید تنقید کی۔‘انھوں نے دلیل دی کہ ’کوئی بھی جج جس کے پاس عدالتی ذہن یا انصاف کا احساس ہو، کبھی اس طرح کے مقدمے کا فریق نہیں بن سکتا اور بغیر کسی لرزہ اور ضمیر کی تڑپ کے موت کی سزا نہیں سنا سکتا۔ یہ ایک فریب ہے جسے آپ نافذ کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے جس قانون کی نشاندہی کی وہ برطانوی کامن لا کے تقاضوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا، ان کے انتہائی پرزور دلائل بھی قانونی ہی تھے۔‘احمد لکھتے ہیں کہ ’وائسرائے لارڈ منٹو کے دل میں جناح کے بارے میں ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر کوئی بھی وہم تھا، جلد ہی دفن ہو گیا۔ جب منٹو نے جناح کو جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے ساتھ سلوک کو بیان کرتے ہوئے ’سخت اور ظالمانہ‘ کے الفاظ استعمال کرنے پر سرزنش کی۔‘جناح نے جواب دیا: ’مائی لارڈ! مجھے زیادہ سخت زبان استعمال کرنی چاہیے لیکن میں اس کونسل کے آئین سے پوری طرح واقف ہوں، اور میں ایک لمحے کے لیے بھی اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ہندوستانیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے وہ سخت ترین ہے اور اس ملک میں یہ احساس متفقہ ہے۔‘
پروفیسر ڈی کے مطابق جناح نے مسلم قانون کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔’انھوں نے 1913 کے مسلم وقف کی توثیق کرنے والے ایکٹ کے لیے لابنگ کی اور اسے نافذ کروایا۔ بعد ازاں اپنے کیریئر میں، جناح نے 1937 میں شریعت ایکٹ کا مسودہ تیار کیا اور اسے پیش کیا، اس ایکٹ میں کہا گیا کہ شریعت کا قانون ہندوستان کے تمام مسلمانوں پر لاگو ہو گا۔ اس ایکٹ نے روایتی قانون کو ختم کر دیا جو مسلمانوں میں رائج تھا اور جس کے ذریعے بہت سے معاملات میں مُسلم خواتین کے ان حقوق سے انکار کیا جن کی انھیں شریعت کے تحت ضمانت دی گئی تھی، جیسے وراثت میں حق اور اس نے ایک مشترکہ قانون کے تحت متحد مسلم کمیونٹی کے تصور کو فروغ دینے میں بھی مدد کی۔‘جناح کا طرز زندگی اعلیٰ طبقے کے انگریز پیشہ ور وکیل جیسا تھا۔احمد لکھتے ہیں کہ اُن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’وہ ایک ہی سلک ٹائی کو دو بار نہیں پہنتے تھے اور ان کی الماری میں تقریباً 200 ہاتھ سے تیار کردہ سوٹ تھے۔ مہنگے کپڑے، جو شاید برطانوی ہندوستان میں ایک کامیاب وکیل کے لیے ضروری تھے، جناح کی بنیادی خواہش تھی۔ لباس کے غیر معمولی ذوق کے باوجود جناح عمر بھر پیسے کے معاملے میں محتاط رہے۔‘1930 کی دہائی کے اوائل میں جناح لندن کے ہیمپسٹڈ علاقے میں ایک بڑے گھر میں رہتے تھے، ان کے پاس ایک انگریز ڈرائیور تھا جو ان کی بینٹلے کار چلاتا تھا اور ایک انگریز ان کا خادم تھا۔ احمد جناح کی بیٹی دینا کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُن کے پاس دو باورچی تھے، ہندوستانی اور آئرش، اور جناح کا پسندیدہ کھانا سالن اور چاول تھے جبکہ انھیں بلیئرڈ کھیلنے میں مزہ آتا تھا۔’دینا کو یاد ہے کہ ان کے والد انھیں تھیٹر، پینٹومائمز اور سرکس دکھانے لے جاتے تھے۔‘احمد کے مطابق جو کچھ ان کے پاس تھا وہ قانونی طور پر بنایا گیا تھا، وکیل اور ایک نجی سرمایہ کار کے طور پر مہارت سے۔اے جی نورانی اپنے ایک مضمون ’ان ڈیفنس آف جناح‘ میں لکھتے ہیں کہ جناح کے لیے، بطور وکیل ان کے ضابطہ اخلاق سے وابستگی سب سے پہلے تھی، جیسا کہ ایک کمیونسٹ کے دفاع سے ظاہر ہوتا ہے۔’جناح یقیناً کمیونسٹ نظریے کے مخالف تھے۔ لیکن بطور وکیل ان کے ضابطہ اخلاق سے ان کی وابستگی سب سے پہلے آئی۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ نفرت سے پاک تھے۔‘
نورانی لکھتے ہیں کہ ’جناح کا ایک اصول تھا کہ بلا معاوضہ مقدمہ نہ لیتے۔ اُن کے بھتیجے اکبر اے پیر بھوائے، جو اُن کے چیمبر میں ایک جونیئر بھی تھے، بمبئی بار میں اپنے ساتھیوں کو بتاتے کہ وہ اس اصول میں نرمی نہ کرتے۔ جناح اس کے بجائے ممکنہ مدعی سے فنڈز جمع کرنے کے لیے کہتے، اور خود بھی اس میں حصہ ڈالتے۔‘’دوسری طرف وہ پیشہ ورانہ اخلاقیات اور آداب کے ساتھ اپنی وابستگی میں نڈر اور سمجھوتا نہ کرنے والے تھے۔ ایک مدعی ک پاس پیسوں کی کمی تھی اور اس نے التجا کی کہ جناح اس فیس کو قبول کر لیں جو وہ پیش کرے اور جب تک فیس چلے وہ مشورہ دیں، کیونکہ وہ گھنٹے کے حساب سے فیس وصول کر رہے تھے۔ جناح نے اتفاق کیا۔ اپنا مشورہ دیا اور دی گئی فیس کا کافی حصہ یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا کہ انھوں نے جو کچھ متعلقہ تھا پڑھ لیا ہے۔‘’1930 کی دہائی کے اوائل تک وہ مبینہ طور پر صرف وکالت سے چالیس ہزار روپے ماہانہ کما رہے تھے جو اس وقت ایک بہت بڑی آمدن تھی۔ جناح کو موہن داس گاندھی جیسے اُن کے مخالفین بھی، برصغیر کے سرکردہ وکیلوں میں سے ایک اور اس وجہ سے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والوں میں شمار کرتے تھے۔‘’ان کی اچھی سرمایہ کاری پر بھی گہری نظر تھی، حصص اور جائیداد میں کامیابی کے ساتھ سرمایہ لگاتے۔ ان کے مکانات شاندار تھے: لندن میں ہیمپسٹڈ، بمبئی میں مالابار ہل پر اور دلی میں 10 اورنگ زیب روڈ پر ایڈون لیوٹینز کا ڈیزائن کردہ گھر۔‘انڈیا کے سابق وزیرِ خارجہ کے نٹور سنگھ جناح کو ’1947 سے پہلے کا سب سے کامیاب ہندوستانی سیاست دان‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ایک ذہین اور شاندار سیاستدان بننے سے پہلے جناح ایک شاندار وکیل تھے۔‘وہ لکھتے ہیں کہ ’(انھوں نے) تقریباً ساری زندگی بمبئی میں گزاری۔ 35 سال کی عمر میں وہ کروڑ پتی ہو گئے۔‘اکبر ایس احمد کے مطابق ’جناح کی دولت نے انھیں ایک آزادی دی کہ وہ جو کہنا چاہتے کہتے۔ عدالت کے اندر، عدالت سے باہر، سیاست میں، قانون ہی ان کے محل نظر ہوتا۔‘ پروفیسر ڈی لکھتے ہیں کہ پاکستان جناح کا آخری مقدمہ تھا۔