اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک)روس سے تیل کے پہلی کارگو جہاز کی پاکستان آمد کے بعد روس سے ازبکستان اور افغانستان کے راستے ایل پی جی مائع پٹرولیم گیس کی پہلی کھیپ بھی پاکستان افغان طورخم بارڈر پہنچ گئی ہے اور اب بارڈر کلیئرنس نظام سے پاس ہونے کے لیے تیار ہے۔طورخم بارڈر میں محکمہ کسٹم کے ترجمان سہیل خان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ یہ ایل پی جی کنٹینرز ابھی پاکستان میں داخل نہں ہوئی ہیں بلکہ بارڈر کے اس پار افغانستان کی جانب موجود ہے۔سہیل خان نے بتایا، ’بارڈر پر کوئی بھی چیز پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک کلیئرنس نظام سے پاس کرایا جاتا ہے اور اب ایل پی جی کنٹینرز کی کلیئرنس ہو کر گاڑیوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت ملے گی۔‘
روس سے تیل درآمد کرنے کے معاہدے کے حوالے سے تمام قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے اداروں پر خبریں، تجزیے اور تبصرے کیے جا چکے ہیں تاہم روس کے ساتھ پاکستان کا ایل پی جی درآمد کرنے کو زیادہ کوریج نہیں ملی پائی۔
اس کی وجہ ممکنہ طور پر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس حوالے سے حکومت نے تفصیل سے عوام کو آگاہ نہیں کیا اور نہ میڈیا پر روس سے ایل پی جی درآمدگی کے حوالے سے حکومتی وزرا نے تبصرے کیے ہیں اور چونکہ یہ معاہدہ حکومتی سطح پر نہیں ہوا ہے تو یہ بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
ایل پی جی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے۔ گھریلو استعمال کے علاوہ صنعتی شعبے میں بھی اس کا خاصا استعمال ہوتا ہے۔بورشان پاکستان میں ایل پی جی کے ڈسٹری بیوٹرز میں شامل ہے۔ بورشان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایل پی جی کی سالانہ طلب 14 لاکھ میٹرک ٹن تک ہے۔اس 14 لاکھ میٹرک ٹن میں تقریباً آٹھ لاکھ 76 ہزار میٹرک ٹن پاکستان خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی ماندہ ضرورت کے لیے ایران سے بذریعہ تافتان بارڈر ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے۔
پاکستان ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عرفان کھوکھر نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ روس سے ایل پی جی کی درآمد پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے بہت ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایل پی جی کی طلب کا 40 فیصد پاکستان خود پیدا کرتا ہے جبکہ باقی ایل پی جی ترکمانستان، اور ایران سے درآمد کی جاتی ہے۔عرفان کھوکھر نے بتایا، ’پہلے پاک ایران تافتان بارڈر، گوادر(جس کو 250 بادر کہا جاتا ہے)، مند، پنجگور اور ترکمانستان سے چمن بارڈر کے ذریعے ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے جبکہ اب طورخم بارڈر سے درآمد شروع ہو گئی ہے۔‘تاہم عرفان کھوکھر نے بتایا کہ جس طرح پورٹ قاسم پر ایک لیبارٹری لگی ہے جو گیس کی کوالٹی کو چیک کرتی ہے، اس طرح کے لیبارٹریاں سرحد پر بھی لگائی جانی چاہییں تاکہ غیر معیاری گیس پاکستان نہ آئے۔عرفان سے جب پوچھا کہ کیا روس سے ایل پی جی کی درآمد حکومتی معاہدے کے تحت ہوئی ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایل پی جی کے نجی سیکٹرز کے صنعت کار درآمد کر رہے ہیں۔عرفان کھوکھر نے بتایا کہ طورخم پر آئے ہوئے کنٹینرز سارے کے سارے نجی سیکٹرز کے نام سے آئے ہوئے ہیں اور نجی سیکٹرز نے ہی ایل پی جی درآمد کی ہے۔
انہوں نے بتایا، ’یہ ایک اچھا اقدام ہے اور حکومت نے نجی سیکٹر کی اتنی مدد کی ہے کہ پہلے طورخم بارڈر پر ایل پی جی کارگو نہں آ رہی تھی لیکن اب اس کی اجازت مل گئی ہے اور مستقبل میں بھی مزید کنٹینرز آئیں گے۔‘عرفان کھوکھر کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اس سے کمی آ سکتی ہے بشرطیکہ حکومت نجی سیکٹر کو مزید سہولیات فراہم کرے۔تجارتی امور کے ماہر اور خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے نائب صدر شاہد حسین نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ترکمانستان، ازبکستان اور روس سے ایل پی جی درآمد کرنے پر باتیں گذشتہ تین مہینوں سے چل رہی تھیں اور اب طورخم بارڈر پر پہلی کھیپ پہنچ گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اتنی مدد کی ہے کہ قانونی طور پر طورخم کے راستے ایل پی کی درآمدگی کی اجازت دی ہے اور فائدہ اس کا اس لیے ضرور ہو گا کہ پہلے قطراور دیگر عرب ممالک سے ایل پی جی آتی تھی اور بلوچستان میں ایران سے سمگل بھی ہوتی تھی جو بلوچستان میں استعمال ہوتی تھی۔تاہم اب روس کے ترمیز شہر سے ازبکستان اور وہاں سے افغانستان سرحد پر واقع حیراتان پوسٹ کے ذریعے طورخم بارڈر پہنچ جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا، ’اس میں ایک فائدہ یہ ہو گا کہ چھوٹے صنعت کار بھی ضرورت کے مطابق ایل پی جی درآمد کریں گے جبکہ اس سے قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔‘