بیجنگ (شِہہوا) چین کے صدر شی جن پھنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن کی درخواست پر ان کے ساتھ فون پر بات چیت کی ہے۔ دونوں صدور نے چین ۔امریکہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر کھل کر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔صدر شی نے کہا کہ گزشتہ نومبر میں صدر بائیڈن کے ساتھ سان فرانسسکو میں ہونے والی ملاقات نے مستقبل پر مبنی سان فرانسسکو وژن کا آغاز کیا۔ گزشتہ کئی ماہ کے دوران دونوں مماک کے عہدیداروں نے صدارتی مفاہمت پر سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ چین ۔ امریکہ تعلقات مستحکم ہونا شروع ہوئے اور دونوں معاشروں اور عالمی برادری نے اس کا خیر مقدم کیا ۔ دوسری جانب تعلقات کے منفی عوامل بھی بڑھ رہے ہیں جس پر دونوں فریقوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ سٹریٹجک تصور کا مسئلہ چین ۔ امریکہ تعلقات میں ہمیشہ بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے ،جو شرٹ کے پہلے بٹن کی مانند ہے جسے پہلے درست ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ چین اور امریکہ جیسے دو بڑے ممالک کو اپنے تعلقات منقطع کرنے یا ایک دوسرے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہئے، دونوں ممالک ایک دوسرے کا احترام کریں، امن کے ساتھ مل جل کر رہیں اور باہمی تعاون میں پیشرفت کریں جبکہ تعلقات کو پیچھے کی سمت لے جانے بجائے مستحکم، ہموار اور پائیدار طریقے سے آگے بڑھائیں۔
صدر شی نے تین اہم اصولوں کی نشاندہی کی جو 2024 میں چین۔ امریکہ تعلقات میں رہنمائی کریں گے۔اول یہ کہ امن کی قدر کی جائے، دونوں فریقین تعلقات میں کسی قسم کے تنازع اور تصادم کا راستہ اختیار نہ کریں اور تعلقات کے مثبت نقطہ نگاہ کو تقویت دیتے رہیں ۔دوسرا یہ کہ استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے دونوں فریق تعلقات کو ازسرنو ترتیب دیں اورواقعات کو بھڑکانے یا حدود عبور کرنے سے گریز کریں تاکہ تعلقات میں مجموعی استحکام برقرار رکھا جا سکے۔تیسرا یہ کہ ساکھ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدوں کا عملی طور پر احترام کریں اور سان فرانسسکو وژن کو حقیقت کا روپ دیں۔انہیں باہمی احترام کے ساتھ بات چیت مستحکم کرنے ، اختلافات دانشمندانہ طریقے سے نمٹانے ، باہمی فائدے کے جذبے سے تعاون میں پیشرفت اور ذمہ دارانہ انداز میں عالمی امور پر تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔صدر شی نے زور دے کر کہا کہ تائیوان کا معاملہ پہلی سرخ لکیر ہے جسے چین امریکہ تعلقات میں عبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ "تائیوان کی آزادی” علیحدگی پسند سرگرمیوں اور ان کی بیرونی حوصلہ افزائی اور حمایت کے پیش نظر چین ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا۔انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ صدر بائیڈن کے "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہ کرنے کے عزم کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے چین کی تجارت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور وہ اپنی پابندیوں کی فہرست میں زیادہ سے زیادہ چینی اداروں کو شامل کر رہا ہے۔ یہ "ڈی-رسکنگ” نہیں ہے بلکہ خطرات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ اگر امریکی فریق باہمی طور پر فائدہ مند تعاون حاصل کرنے اور چین کے ترقیاتی منافع میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے تو اسے چین کا دروازہ ہمیشہ کھلا نظر آئے گا، لیکن اگر وہ چین کی ہائی ٹیک ترقی کو روکنے اور چین کو ترقی کے اس کے جائز حق سے محروم کرنے کی کوشش کرے گا تو چین بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔صدر شی نے ہانگ کانگ سے متعلق امور، انسانی حقوق، بحیرہ جنوبی چین اور دیگر امور پر چین کا مؤقف بیان کیا۔
اس موقع پر امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ ۔ چین تعلقات دنیا کے اہم ترین تعلقات ہیں۔ سان فرانسسکو اجلاس کے بعد سے تعلقات میں پیشرفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق ذمہ داری کے ساتھ اختلافات کے باوجود تعاون میں پیشرفت کرسکتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ نئی سرد جنگ نہیں چاہتا ، اس کا مقصد چینی نظام تبدیل کرنا نہیں ہے اور اس کے اتحاد چین مخالف نہیں ہیں ۔ امریکہ "تائیوان کی آزادی” کی حمایت نہیں کرتا اور امریکہ چین کے ساتھ کوئی تصادم نہیں چاہتا اور امریکہ ایک چین اصول پر عمل پیرا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کی کامیابی دنیا کے مفاد میں ہے۔ امریکہ چین کی ترقی روکنا نہیں چاہتا اور نہ ہی چین کی ” ڈی کپلنگ” کا خواہشمند ہے۔ امریکہ اپنے وزیر خزانہ جینٹ یلین اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو جلد ہی چین کے دورے پر بھیجے گا تاکہ بات چیت اور رابطے مضبوط بناتے ہوئے غلط اندازوں سے بچا جا سکےاور تعاون کو فروغ دیا جاسکے تاکہ تعلقات مستحکم راہ پر آگے بڑھیں اور عالمی چیلنجز کا مشترکہ طور پرنمٹنے میں مدد مل سکے۔دونوں صدور نے یوکرین بحران، جزیرہ نما کوریا کی صورتحال اور دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔